|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2019

روزنامہ آزادی کی تاریخ کو جاننے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ تخلیق کار لالا صدیق بلوچ کی تاریخ کا مطالعہ کریں،روزنامہ آزادی صدیق بلوچ کی تاریخی کاوشوں میں سب سے بڑی کاوش ہے جس کی بدولت آج پرنٹ کی شکل میں ملک بھر خصوصاً بلوچستان کے کونے کونے میں عوام کو معلومات فراہم ہو رہی ہے جبکہ ویب سائٹ اور سوشل میڈیا کیذریعے بلوچستان و پاکستان کی حالات سے پوری دنیا کو باخبر رکھا جا رہا ہے۔

،لالا صدیق بلوچ نے روزنامہ آزادی کی اشاعت 18 سال قبل کوئٹہ سے کی اس وقت بلوچستان کے مقامی خبروں کو کسی بھی اخبار اور جریدہ میں وہ اہمیت حاصل نہیں تھی جو روزنامہ آزادی نے اپنی اشاعت سے ہی دینا شروع کر دیا،بلوچستان کے بنیادی مسائل پانی،بجلی،گیس،معدنیات،ساحل وسائل،ریکوڈک و سیندک،ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، لوڈ شیڈنگ،بے روزگاری،اندورن بلوچستان گیس کی فراہمی،غرض یہ کہ جتنے بھی بنیادی مسائل تھے۔

انہیں اجاگر کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا غیر جانبداری اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے،تمام پارٹیوں کا یکساں کوریج دینے کی بدولت روزنامہ آزادی بلوچستان کے عوام کی مقبول ترین اخبارات میں شامل ہو گیا اخبار کی مقبولیت اور عوامی مسائل اجاگر کرنے کی وجہ سے لالا صدیق بلوچ کو کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا،دھونس دھمکیاں تو معمول بن گئی تھیں۔

اپنی خواہشات کی مطابق خبریں چھپوانے والوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی،مگر آفرین ہے انہوں نے ہمیشہ ہر مسئلے کو اپنے سر لیا روزنامہ آزادی کے معیار اور پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور یہی وجہ تھی کہ اخبار کا گلہ گھونٹنے کے لئے تمام حربے استعمال ہوئے اخبار کی چوکیداری کی گئی،ملازمین کو پریشان کیا گیا،اشتہارات کی بندش ایک الگ وار تھا مگر سب ناکام ہوئے آزادی اخبار تھا جو ایک عزم کیساتھ رواں دواں رہا۔

آج صدیق بلوچ کوہم سے جدا ہوئے کم و بیش دو سال ہونے کو ہے مگر ان کی جانب سے لگائے گئے اس درخت سے ہم سب بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مستفید ہو رہے ہیں،کوئی خبر پڑھ کر مستفید ہو رہا ہے تو کوئی خبر بنا کر مستفید ہو رہا ہے۔

اجتماعی طور پر بلوچستان کے لوگ روزنامہ آزادی کے ذریعے علاقائی،ملکی اور بین الاقوامی خبروں سے مستفید ہو رہے ہیں دشمنان آزادی نے لالا صدیق بلوچ کی رحلت کے بعد ایک پروپیگنڈہ شروع کیا کہ لالا صدیق بلوچ کے جانے کے بعد اب یہ ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں رہ سکے گا مختلف سوالات پیدا ہونے لگے مگر اخبار کے ایڈیٹر آصف بلوچ کی تربیت بھی تو لالا صدیق بلوچ نے ہی کی تھی طارق بلوچ نے بھی تو بنیادی سبق لالا صدیق سے حاصل کیا تھا۔

عارف بلوچ،ظفر بلوچ اور صادق بلوچ بھی تو لالا کی اولاد اور شاگرد تھے لالا صدیق بلوچ کی جسمانی جدائی اپنی جگہ ایک بڑی کمی ہے جو کبھی نہیں بھر سکتی مگر دشمنان آزادی کا یہ خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکا۔

ان کی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوئی کہ آزادی اپنی وجود کو برقرار نہیں رکھ سکے گی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کے تمام فرزندوں نے اپنی محنت حکمت عملی کی وجہ سے لالا صدیق بلوچ کی جانب سے لگائے گئے اس درخت کی خوب آبیاری کر رہے ہیں اور وہی نتیجہ وہی کمال کا اداریہ وہی منفرد خبریں غرض یہ کہ وہی پالیسی آج بھی آزادی اخبار نے برقرار رکھاہے جو لالا صدیق بلوچ نے رکھی تھی۔

آج بھی روزنامہ آزادی بلوچستان کے عوام کی اسی طرح ترجمانی کر رہا ہے جس طرح کہ اپنی تخلیق کار لالا صدیق کے زمانے میں تھا اب آتے ہیں روزنامہ آزادی کی کامیابی کی وجوہات پر کہ اخبارات تو بہت ہیں مگر یہ اعزاز روزنامہ آزادی کو کیوں حاصل ہے اس بات کا مشاہدہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دوسرے اخبارات کا مشاہدہ کریں کہ باقی اخبارات (ڈمی اخبارات نہیں) میں بلوچستان کی نمائندگی کتنی ہے،فرنٹ پر کتنی جگہ بلوچستان کی مسائل کو مل رہی ہے۔

،کتنی جگہ بیک بیج پر یا اندرون صفات پر جب آپ ان تمام اخبارات کا مشاہدہ کریں گے جو بلوچستان کے فنڈز سے اشتہارات حاصل کر رہے ہیں تو آپ سب کو مایوسی ہو گی کہ ان تمام اخبارات میں بلوچستان کے مسائل کی نشاندہی والی خبروں کو آٹے میں نمک کے برابر جگہ ملتی ہے جبکہ روزنامہ آزادی میں ستر فیصد سے زیادہ جگہ بلوچستان کو ملتی ہے۔

مجھے لالا صدیق بلوچ کی یہ بات ہمیشہ یاد رہے گی وہ ہمیشہ یہ ہدایات دیتے تھے کہ یہ بلوچستان کا اخبار ہے اس میں اولیت بلوچستان کے مسائل کو ملنی چائیے کیونکہ اگر ہم بلوچستان کے مسائل کو اولیت نہیں دیں گے تو باقی ویسے بھی نہیں دے رہے ہیں جس کا نقصان یہ ہو گا کہ بلوچستان کے مسائل اجاگر نہیں ہونگے جب مسائل اجاگر نہیں ہونگے تو ان میں اضافہ ہوتا رہے گا وہ حل نہیں ہونگے یوں ہم جس مقصد کے لئے اس ادارے کو قائم کر کے اس کی آبیاری کر رہے ہیں پھر اس کے فواہد بلوچستان کو حاصل نہیں ہونگے روزنامہ آزادی کی جتنی عمر ہے میرا ان سے تعلق بھی اتنا ہی ہے۔

میں نے اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا اور میں نے لوگوں کو اس ادارے سے بہت کچھ سیکھتے دیکھا اس ادارے نے جہاں عوامی مسائل،سیاسی مسائل،حکومتی موقف،اپوزیشن کا بیانیہ،سیاسی جماعتوں کا نقطہ نظر،مذہبی جماعتوں کے موقف کو بہترین اور مناسب کوریج دے کر ایک مقام حاصل کیا وہیں اس ادارے نے بڑے بڑے نامی گرامی صحافی بھی پیدا کئے جو آج مختلف ٹی وی چینلوں اور نشریاتی اداروں میں کام کر رہے ہیں۔

روزنامہ آزادی نہ صرف ایک اخبار ہے بلکہ یہ ایک علمی ادارے کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتا ہے جس نے بلوچستان کے نوجوانوں صحافت کے شعبہ میں اپنا مقام بنانے کا مکمل موقع دیا اور آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد اس ادارے میں سیکھنے کے لئے آتے ہیں میں جانتا ہوں کہ آصف بلوچ کے کندھوں پر بڑی ذمہ داری ہے مگر مجھے خوشی ہے کہ وہ بحیثیت ایڈیٹر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔

ہم میں سے کوئی رہے یا نہ رہے مگر یہ ادارہ انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم و دائم رہے گا اور یوں کامیابوں کا سفر جاری و ساری رکھے گا آزادی اخبار کو پڑھنے والے قارئین،اسٹاف،ایڈیٹر صاحب سمیت تمام لوگوں کو روزنامہ آزادی کی سالگرہ مبارک وسلام۔