|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2014

افغانستان میں خانہ جنگی ایک اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔ صدارتی اور مقامی انتخابات میں طالبان کی پسپائی کے بعد سرکاری افواج نے طالبان کے ٹھکانوں پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بعض علاقوں میں 37سے زائد جنگجوؤں کو جھڑپوں میں ہلاک کیا جا چکا ہے ۔ آئے دن ان پر بمباری کی جارہی ہے ۔ طالبان پسپائی کی طرف گامزن ہیں ۔دوسری جانب امریکا اپنا دباؤ پاکستان پر بڑھا رہا ہے کہ وہ طالبان جنگجوؤں کے تمام محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرے، وہ بھی افغانستان کے نئے صدر کے حلف لینے سے پہلے ۔امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے اپنے افواج کا انخلاء اس سال کے آخر تک مکمل کر لیں گے۔ اس انخلاء سے پہلے امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں ایک پر امن معاشرہ اور ماحول کا قیام چاہتے ہیں جس کے لئے پاکستانی اور افغان طالبان شدید خطرہ ہیں ۔ اس لئے گزشتہ کئی ہفتوں سے افغان نیشنل آر می افغان شدت پسندوں اور طالبان کے خلاف مسلسل کارروائی کررہی ہے ۔ گزشتہ چنددنوں میں افغان آرمی نے 69شدت پسندوں کو ہلاک کیا اور حالیہ کاروائی میں 37دوسرے شدت پسند ہلاک کیے گئے یہ کارروائیاں افغانستان کے درجن بھر صوبوں میں بیک وقت ہوئیں اور ان کارروائیوں کو ناٹو اور امریکی فضائیہ کی حمایت حاصل تھی ۔ گن شپ آسمان سے طالبان جنگجوؤں پر بم برساتے رہے اور وہ پسپا ہوتے رہے ۔ جب اس قسم کی کارروائیاں ہوتی رہیں تو امریکا نے اپنے ایک اعلیٰ ترین افسر ولیم برنز کو پاکستان بھیجا تاکہ سول اور ملٹری لیڈر شپ سے مذاکرات کئے جائیں ۔ ان ملاقاتوں میں ولیم برنز کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ پاکستان فوجی کارروائی کرکے طالبان کے محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کردے۔ یہ پناہ گاہیں خطے اور عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں ۔ اسی قسم کا بیان یورپی یونین کی جانب سے بھی آیا تھا جس میں طالبان کی محفوظ پناہ گاہوں کو عالمی اور خطے کے امن کے لئے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں تک اس کی آگاہی حکمران حلقوں میں نہیں تھی۔ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ’’ اچھے طالبان‘‘ پاکستان کیلئے اثاثہ ہیں اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد وہ افغانستان کو پاکستان کا نیا صوبہ اگر نہیں بھی بنائیں گے تو اس کو ایک ’’ ماتحت ریاست‘‘ ضرور بنائیں گے۔ ولیم برنز کے دورے کے بعد ان حلقوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جن کو اب بھی خوش فہمی ہے کہ ’’ اچھے طالبان قومی اثاثہ ‘‘ ہیں ۔ یہ بات اب صاف اور واضح ہوچکی ہے کہ کابل پر طالبان کی حکومت نہیں آسکتی ۔ بین الاقوامی برادری اس کی قطعاً اجازت نہیں دے گاکہ 2001ء سے پہلی کی صورت حال افغانستان میں دوبارہ بحال ہو ۔ بلکہ بین الاقوامی برادری پاکستان پر اپنادباؤ مسلسل بڑھا رہا ہے کہ طالبان کی تمام محفوظ پناہ گاہیں جلد سے جلد تباہ کی جائیں ۔ اگر پاکستان اس بات سے انکار کرے گا کہ بین الاقوامی افواج یہ کام خود سرانجام دیں تو صرف اقوام متحدہ میں ایک قرار داد کے ذریعے افغانستان میں کاروائی کے دائرہ اختیار کو پاکستان تک بڑھایا جائے گا ۔ یہ ایک خوفناک صورت حال ہوگی کہ پاکستانی افواج کی موجودگی میں اقوام متحدہ کی افواج پاکستان کے اندر کارروائیاں کریں ۔ لہذا گمان ہے کہ اس سے قبل پاکستان کے مسلح دستے ان تمام ٹھکانوں کو تباہ کردیں گے جو پاکستانی اورغیر ملکی جنگجوؤں کے زیر استعمال ہیں ۔ ان سب کو پاکستان سے نکال دیا جائے گا ۔ طالبان کا رد عمل کیا ہوگا وہ سب کو معلوم ہے کہ ہر شہر دہشت گردی کا اس وقت نشانہ بنتا رہے گا جب تک طالبان کا کمانڈ اور کنٹرول نظام نیست و نابود نہ ہوجائے ۔