|

وقتِ اشاعت :   June 22 – 2019

یہ دنیا بے بہا علوم کا مجموعہ ہے،انسانی عقل ہمیشہ ان علوم کی وسعت کو کھوجنے میں لگی رہی اور ا سی سبب دنیا نے ترقی کی اتنی منازل طے کر لیں کہ شاید زمانہ قدیم کے انسان کا ذہن اسے تسلیم بھی نہ کر سکے۔سمندر کی وسعت اور گہرائی انسانی ذہن کے لئے ایک ایسا ہی معمہ رہی جس کی کھوج میں نسل انسانی نے صدیوں کا سفر طے کیا،نوع انسانی کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہی کہ وہ سمندر کی گہرائی میں اتر کر نئی دنیا کی وسعتوں کو دریافت کرے اور اس میں چھپے بیش بہا خزانوں سے مستفید ہو۔یہی وجہ ہے کہ انسان نے سمندری مہم جوئی کا آغاز کیا،تاہم یہ مہم جوئی زمینی راستوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھی کیونکہ حد نگاہ سے آگے سمندر کی تہہ کیا چھپائے بیٹھی ہے یہ کوئی نہ جانتا تھا۔ لیکن انسان کی جستجو اور لگن اس کی ہر کامیابی کا راز ہے اور اسی جستجو کا ہی نتیجہ تھا کہ سمندر کی تہہ میں موجود خزائن اور رکاوٹوں کا سراغ لگانے کے طریقے بھی ڈھونڈ لئے گئے۔
ابتدا میں سمندری مہم جوئی کرنے والے افراد انفرادی سطح پر رسیوں اور لکڑیوں کی مدد سے پانی کی گہرائی اور چٹانوں اور رکاوٹوں کا اندازہ لگا کر چارٹس اور نقشے بناتے جو عموماً ان کے ذاتی استعمال میں ہی رہتے اور خفیہ رکھے جاتے تاکہ جن علاقوں کی تفصیلات ان افراد کے پاس موجود ہیں ان تک کسی اور کی رسائی ممکن نہ ہوسکے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ سمندروں کی گہرائی معلوم کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مختلف ممالک میں قومی سطح پر اس عمل کا آغاز کیا گیا اورجدید ٹیکنالوجی اور نت نئی ایجادات کی مدد سے بحری پیمائش کے لئے کئے جانے والے سروے کا طریقہ کار بھی جدت اختیار کر گیا۔ نئے دور کی تکنیک اور آلات کے باعث سمندر کی گہرائی کی پیمائش نہایت باریکی اور درستگی کے ساتھ ممکن ہو گئی اور سمندر کی گہرائی کی پیمائش کر کے ناٹیکل چارٹس اور نقشے بنائے گئے تاکہ پانی کی گہرائی اور زیر آب پائی جانے والی دیگر اشیاء مثلا چٹانو ں اور رکاوٹوں سے متعلق معلومات کی فراہمی سے بحری سفر آسان اور محفوظ بنایا جا سکے۔
پانی کی گہرائی کی پیمائش یا سمندر کے سروے کا یہ علم ہائیڈروگرافی کہلاتا ہے، یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جس کا تعلق سمندروں، دریاؤں، جھیلوں اور ساحلی علاقوں کی پیمائش اور تفصیلات سے ہے۔ اس پیمائش کا مقصدنقشوں کی تیاری اور بین الاقوامی پانیوں اور بندرگاہوں میں جہاز رانی کو محفوظ بنانا، بندرگاہوں کی تعمیر، بحری وسائل کا صحیح استعمال، پڑوسی ممالک کے درمیان بحری حد بندی، سمندروں میں پائپ لائنز اور کیبلز وغیرہ بچھانا اور سمندری حادثات سے نمٹناہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سمندر میں کیا جانے والا کوئی بھی تحقیقی عمل اور اس تحقیق کا عملی اطلاق ہائیڈروگرافی کے علم کے بغیر ممکن نہیں۔
سمندروں کے قوانین سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن (UNCLOS)، اور سمندروں میں ادارہ برائے تحفظ حیات(SOLAS) اور عالمی بحری علوم کے ادارے (IHO) کے مطابق ہر ساحلی ریاست اپنی سمندری حدود میں ہائیڈروگرافک سروے کرنے اور چارٹس اور نقشے تیار کرنے کی پابند ہے۔یہ امر اس لئے ضروری ہے کہ اس کی مدد سے بین الاقوامی جہاز رانی کو محفوظ اور آسان بنایاجا سکے۔ہائیڈروگرافک سروے کی مدد سے ناٹیکل چارٹس اور نقشے بنائے جاتے ہیں جو نہ صرف جہاز رانی بلکہ بحری وسائل کی نشاندہی اور تلاش میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ان چارٹس اور نقشوں میں ہم آہنگی اور ربط و ضبط پیدا کرنا انٹرنیشنل ہائیڈروگرافک آرگنائزیشن کی ذمہ داری ہے۔ اسی آرگنائزیشن کے تحت21 جون کو ہائیڈروگرافی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد ہائیڈروگرافرز کے کام کی تشہیر اور ہائیڈروگرافی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
رواں برس اس دن کا عنوان
“Hydrographic information driving marine knowledge”ہے۔جس کا مقصد مختلف بحری امور خصوصا میرین نالج کے پیچھے کار فرما ہائیڈرو گرافک آرگنائزیشنز کی محنت اورہائیڈرو گرافی کی بڑھتی ہوئی ضرورت اوراہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔پاکستان میں بھی متعلقہ ادارے اس دن کے حوالے سے مختلف تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں اور اس اہم مگر گمنام شعبے میں جدت اور ترقی کے لئے نئے اقدامات کرتے ہیں۔پاکستان میں بحری پیمائش کے سروے کی یہ بین الاقوامی ذمہ داری پاکستان نیوی ہائیڈروگرافک ڈیپارٹمنٹ احسن طریقے سے پوری کر رہا ہے، ڈیپارٹمنٹ کا چارٹنگ سنٹر روایتی سمندری نقشے بنانے کے علاوہ برقی نقشے اور دیگر کتب بھی تیار کر رہا ہے تاکہ یہ جدید، خودکارجہاز رانی کے لیے رہنمائی مہیا کر سکیں۔یہی ادارہ ملکی سمندری علاقے کے متعلق تمام معلومات کی ذخیرہ گاہ بھی ہے اور بوقت ضرورت یہ معلومات دوسرے قومی اداروں اور درسگاہوں کو تحقیقی مقاصد کے لئے بھی مہیا کی جاتی ہیں۔

علاوہ ازیں اسی ادارے کی درس گاہ میں پاکستان اور دیگر ممالک بشمول بنگلا دیش، سری لنکا، سوڈان، آزربایئجان, نائجیریا اور دیگر ممالک کے افسران اور جوانوں کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔یہی ادارہ IHO،خلیجی ممالک اور شمالی بحر ہند کی علاقائی ہائیڈروگرافک تنظیموں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاکستان ان تمام تنظیموں کا ایک فعال رکن ہے اور بحری علوم میں اپنی استعداد اور مہارت کی وجہ سے خطے میں اہم مقام رکھتا ہے۔ماضی قریب میں پاکستان خلیجی ممالک کی ہائیڈروگرافک تنطیم کا سربراہ بھی رہا ہے اوررواں برسROPME Sea Area Hydrographic commission کی آٹھویں کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز بھی پاکستان کو حاصل ہو ا یہ کانفرنس فروری 2019 میں اسلام آباد میں منعقد کی گئی۔ جس میں تمام ممبر ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی اور پاکستان کی بحری پیمائش اور تحقیق کی صلاحیتوں کی بھرپور تعریف بھی کی۔اس کے علاوہ پاکستان شمالی بحر ہند کی ہائیڈروگرافک تنظیم (NIOHC)کا بھی ممبر ہے اور اس فورم پر اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان بحریہ کے بیڑے میں ایس وی بحر پیما کے نام سے ایک ہائیڈروگرافک اور اوشیانوگرافک جہاز شامل ہے جو ملکی بحری حدود کے سروے میں مرکزی کردار کا حامل ہے، یہ جہاز متعدد قومی تنظیموں کے اشتراک سے ہائیڈروگرافی اور اوشیانوگرافی کی سانئسی تحقیق میں بھی معاونت فراہم کرتا ہے۔ملکی بحری پیمائش اور تحقیق کی استعداد میں وسعت پیدا کرنے کے لئے ایک 3000 ٹن وزنی جہازچین میں زیرتعمیر ہے جسے جلد ہی پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل کر لیا جائے گا۔

اس جہاز کی شمولیت سے پاکستان کی میرین سائینٹیفک ریسرچ اورزیر آب سرچ اینڈ لوکلائزیشن آپریشنز میں مزید وسعت اور جدت پیدا ہو گی۔پاکستان نیوی ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ کیونکہ کئی برس سے اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کر رہا ہے اسی لئے اس کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر مختلف سروے خصوصا علاقائی ممالک کی سربراہی کرتے ہوئے سیشل Seychlles) ( میں IHO کے پرچم تلے ہائیڈروگرافک سروے کی تکمیل شامل ہیں اس سروے کے کامیاب انعقاد پرپاکستان کوعالمی سطح پر بھرپور ستائش ملی۔ اس کے علاوہ قومی اہمیت کے حامل مختلف پراجیکٹس بشمول پورٹ قاسم، گوادر پورٹ اوراورماڑہ کی بندرگاہوں کے قیام کے لئے تحقیق اور دریائے سندھ پر آبی آمد و رفت کے لئے پیمائش بھی قابل ذکر ہیں۔

ماضی قریب میں اس ڈیپارٹمنٹ نے قومی ادارہ برائے سمندری تحقیق (NIO)کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں کامیابی سے پاکستان کی سمندری حدود میں اضافے کا مقدمہ لڑا جس کے نتیجے میں پاکستان کے لئے تقریبا پچاس ہزار مربع کلو میٹر کے سمندری علاقے کا اضافہ ممکن ہوا۔ اس علاقے کے تیل، گیس اور دوسری معدنیات و ذخائر پر اب صرف پاکستان کا حق ہے۔محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود گزشتہ ستر برس کے دوران ہائیڈرو گرافک ڈیپارٹمنٹ نے قومی معیشت،تجارت، بحری تحقیق اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بحری تنازعات کے حل میں بالواسطہ طور پر اہم کردار ادا کیا ہے اس کے علاوہ ملکی سطح پر اداروں، پالیسی سازوں اور کاروباری افراد میں میری ٹائم سیکٹر او ر بلیو اکانومی کے حوالے سے آگہی کے فروغ کے لئے پاک بحریہ کی کاوشوں میں اس ادارے کی انتھک محنت بھی شامل ہے جو مستقبل قریب میں ملکی میری ٹائم سیکٹر کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرے گی۔