|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2019

کوئٹہ :  بلوچستان حکومت کے ترجمان کی جانب سے اے پی سے متعلق ٹویٹ پر بلوچستان اسمبلی میں ہنگامہ، متحدہ اپوزیشن نے خاطرخواہ وضاحت نہ آنے پر واک آؤٹ کرلیا، جبکہ وزیراعلیٰ جام کمال نے کہا ہے کہ ترجمان کے بیان کو سمجھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کسی مخصوص فرد سے متعلق نہیں بلکہ اے پی سی سے متعلق بیان دیا ہے۔

بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اس معاملے کو جمعیت علماء اسلام کے اصغر ترین نے نکتہ اعتراض پراٹھاتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت کے ترجمان نے یہاں اسمبلی کے اندرآفیشل گیلری میں بیٹھ کر ایک ٹویٹ کیا ہے جس میں ہمارے قائدین کے خلاف ایک ایسی زبان استعمال کی گئی ہے جس کی اجازت صوبے کی روایات میں نہیں جبکہ اسمبلی میں موبائل فون کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہے ہمیں بتایا جائے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

ڈپٹی سپیکر نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ گیلری میں بیٹھے کسی شخص کو نام لے کر مخاطب نہیں کرسکتے نہ ہی میرے علم میں لائے بغیر کسی کو کچھ کہہ سکتے ہیں انہوں نے اصغرترین کو بیٹھنے کی تاکید کی تاہم اصغرترین اور اپوزیشن کے دیگر اراکین مسلسل بولتے رہے اورایوان میں شور شرابہ ہونے لگا جس پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کرنے کی رولنگ دی۔

بعدازاں اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے صوبائی حکومت کے ترجمان کے ٹویٹ کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپیکر اور حکومت اس معاملے کی تہہ تک پہنچی ہی نہیں ہمیں حکومت بلوچستان نے گالی دی ہے اگر حکومت بلوچستان ہمیں گالیاں دیتی ہے تو یہ کسی صورت قابل برداشت نہیں آپ ٹویٹ دیکھیں۔انہوں نے کہا کہ وقفے کے دوران صوبائی وزراء میر سلیم کھوسہ، میر ضیاء لانگو اور میر نصیب اللہ نے بھی ترجمان کی جانب سے استعمال کئے گئے۔

الفاظ کی مذمت کی انہوں نے کہا کہ جس شخص نے انفرادی حیثیت سے بیان دیا ہے وہ انفرادی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کا ترجمان ہے اگر وہ ہمارے قائدین کے خلاف ایسی زبان استعمال کرتا ہے تو یہ کسی بھی معاشرے میں قابل برداشت نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ میر جام کمال نے اس موقع پر ایوان میں ترجمان حکومت بلوچستان کے جاری کردہ ٹویٹ کو پڑھتے ہوئے ایوان میں وضاحت کی اور کہا کہ ترجمان نے حکومت کے مضبوط بیانئے، کرپٹ مافیا کو نہ چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ایم ایم اے کی شاندار ناکامی کے بعد اب اے پی سی کی بدبودار ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو بیان دیا گیا ہے اس میں کسی کی ذات کے حوالے سے کچھ نہیں ہر جماعت کا اپنا موقف ہوتا ہے ہم اے پی سی کا حصہ نہیں جبکہ سردارا ختر مینگل کی پارٹی بھی اے پی سی کا حصہ نہیں عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتیں اس میں شامل ہیں ہمیں دونوں چیزوں کو الگ الگ دیکھنا ہوگا بیان میں اے پی سی کا ذکر کیا گیا ہے۔

مولانا صاحب کے حوالے سے بالکل کچھ نہیں سردار اختر مینگل سے متعلق میں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی وفاق میں اپنی پوزیشن واضح کرے کہ وہ حکومت کی اتحادی ہے یا نہیں جس پر میرے اور میرے خاندان کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے باوجود میں نے اس کا جواب نہیں دیا ہم انفرادی حیثیت سے کسی شخص پر بات نہیں کرسکتے لیکن سیاسی موقف پر ہم بات کرسکتے ہیں، کسی حکومت پر بات کرسکتے ہیں ایک پارٹی کے موقف پر بات کرسکتے ہیں ہمیں کھلے دل و دماغ سے چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی وفاق میں اپوزیشن میں ہے صوبے میں وہ حکومت کی اتحادی ہے اسی طرح بی این پی وفاق میں حکومت کی اتحادی اور صوبے میں اپوزیشن میں ہے جبکہ جے یوآئی وفاق اور صوبے دونوں میں اپوزیشن میں ہے۔کچھ چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہاں اراکین اسمبلی اور پارٹیوں کے ترجمان بھی بولتے ہیں اگر ہم اس طرح کی ہر بات کو سنجیدگی سے لیں تو پھر دوسری با ت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ایوان میں معزز رکن کی جانب سے نمبر بڑھانے کی بات کی گئی جو اس بات کی عکاسی ہے کہ زبان کبھی کبھی انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ جام صاحب نے خوبصورت طریقے سے زہر والی گولی کو شہد بنانے کی کوشش کی،آپ کے لیڈر کو بار بار سلیکٹڈ کہا گیا حتیٰ کہ سپیکر نے وہ لفظ بند کرادیا اب صوبائی حکومت کے ترجمان اے پی سی کو بد بودار کہہ رہے ہیں مطلب سارے رہنماء جو اے پی سی میں ہیں انہیں بد بودار کہا جارہا ہے۔

بی این پی کے ثناء بلوچ نے کہا کہ ترجمان حکومت بلوچستان نے کل بھی یہاں ایوان میں بیٹھ میرے حوالے سے ٹویٹ کیا اس ٹویٹ کی ٹائمنگ بھی دیکھی جاسکتی ہے اور کیمروں سے فوٹیج بھی نکالی جاسکتی ہے میں نے ان کے ٹویٹ کو نظر انداز کیاکیونکہ اس طرح کی باتوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا بلوچستان حکومت نے موصوف کو اپنا ترجمان مقرر کیا ہے ہمیں ان کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا لیکن ہمیں لگ رہا ہے کہ بلوچستان حکومت فواد چوہدری جیسے لوگوں کو پال کر صوبے میں اخلاقیات بھی خراب کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسے لوگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں سپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ چور دروازے سے بااختیار، معزز اراکین اور لیڈرشپ کے خلاف ایوان کے اندر سے ٹویٹ کرنے والے کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی عائد کرے اصغرترین نے بھی ترجمان صوبائی حکومت کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا۔

جس پر مشیر وزیراعلیٰ مٹھاخان کاکڑ نے کہا کہ ٹویٹر کا جواب ٹویٹر اور فیس بک کا فیس پر دیا جائے ایوان میں اس کے تذکرے کیوں کیا جارہا ہے اس موقع پر اپوزیشن اراکین نے حکومت کی جانب سے واضح وضاحت نہ آنے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔