پیر کے روز پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نواز شریف کو قید کی سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے مبینہ انکشافات پر مبنی ویڈیو جاری کی جس کے بعد پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ہلچل مچ گئی۔
پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی جانب سے جج ارشد ملک کی ایک لیگی کارکن ناصر بٹ کے ساتھ ایک ویڈیو منظر عام پر لائی گئی جس میں مبینہ طور پر جج فیصلہ لکھنے سے متعلق کچھ نامعلوم افراد کی طرف سے دباؤ کے بارے میں بتا رہے تھے،مبینہ ویڈیو کی تحقیقات سے قبل ہی مریم نواز نے مطالبہ کر دیا کہ ان ناقابل تردید ثبوتوں کا اعلیٰ عدلیہ اور مقتدر ادارے نوٹس لیں، انہوں نے کہاکہ نواز شریف کا جیل میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کے دوران اس مبینہ ویڈیو پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پیش کی گئی ویڈیو ٹیپ کے فرانزک آڈٹ کا اعلان کیا۔
اس بات کا اعلان اتوار کی دوپہر رجسٹرار احتساب عدالت کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے بعد کیا گیا جس میں جج ارشد ملک نے ان کے حوالے سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا۔فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا ایک وارداتی ٹولہ حقائق مسخ کر کے قوم کا وقت ضائع کرنے میں مصروف رہا اور پریس کانفرنس میں اداروں کے خلاف روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا یہ صرف ارشد ملک کی ذات سے جڑا کنڈکٹ نہیں بلکہ عدلیہ پر حملہ ہے جعل ساز گروہ اور مافیا اداروں کو کسی طرح بھی آزاد اور خودمختار نہیں دیکھنا چاہتے۔ان کا کہنا تھا آڈیو، ویڈیو ٹیپ بنانے اور چلانے والے دونوں کردار سند یافتہ جھوٹے ہیں اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مریم صفدر اعوان کے دعوے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے آڈیو اور ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے۔اس لیے اشد ضروری ہے کہ ویڈیو کو دیکھا جائے کہ وہ اصلی ہے یا ٹیمپرڈ، اس ٹیپ کی فرانزک آڈٹ کے بعد سب سامنے آ جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت تحقیقات کر کے اس میڈیا ہاؤس کی بھی نشاندہی کرے گی جہاں یہ آڈیو ویڈیو جوڑی گئی اور حکومت پیمرا ایکٹ کے تحت جعل سازی میں ملوث تمام پردہ نشینوں کو بے نقاب کرے گی۔ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو پر رجسٹرار احتساب عدالت کی جانب سے ایک پریس ریلیز کا اجرا ء کیا گیا جس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیوز کو جعلی اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا۔
انہوں نے اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کوحقائق کے برعکس اور ان کی اور ان کے خاندان کی ساکھ متاثر کرنے کی سازش قرار دیا۔ارشد ملک کا کہنا تھاکہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نہ تو کوئی دباؤ تھا اور نہ ہی کوئی لالچ پیش نظر تھا۔ یہ پریس کانفرنس محض میرے فیصلوں کو متنازع بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
ارشد ملک کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات کی سماعت کے دوران مجھے ان کے نمائندوں کی طرف سے بارہا نہ صرف رشوت کی پیش کش کی گئی بلکہ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی گئیں جن کو میں نے سختی سے رد کرتے ہوئے حق پر قائم رہنے کا عزم کیا اور اپنے جان و مال کو اللہ کے سپرد کر دیا۔
پریس ریلیز کے مطابق جج ارشد ملک نے کہا کہ مذکورہ ویڈیوز میں دکھائے کردار ناصر بٹ کا تعلق انہی کے شہرراولپنڈی سے ہے اور ان سے ان کی پرانی شناسائی ہے۔بہرحال اب اس ویڈیو کی قانونی حیثیت کیا ہے، قانونی ماہرین کے مطابق قانونی شہادت کے تحت جدید آلات سے بنائی گئی آڈیو یا ویڈیو جو کسی مقدمے سے تعلق رکھتی ہو اور اسے حل کر سکتی ہو تو اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ 2002 کا الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔
حکو مت نے ویڈیو کی فرانزک آڈٹ کے حوالے سے واضح بیان دیا ہے لیکن اس ویڈیو نے ملک میں ایک بڑی بحث چھیڑ دی ہے۔ البتہ ارشد ملک کو کیس کے دوران جس طرح مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی جانب سے رشوت اور دھمکیاں دی گئی تھیں تواسی دوران انہیں اعلیٰ عدلیہ کو اس تمام صورتحال سے آگاہ کرنا چاہئے تھاکیونکہ اب اسے ردعمل کے طور پر ہی دیکھاجائے گا۔
بعض حلقے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے بھی ویڈیو ٹیپ کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے کامطالبہ کررہے ہیں تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں، جج ارشد ملک کا بیان اپنی جگہ ایک جواب تو ضرور ہے مگر جب تک یہ معاملہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا، انہیں کیسز دیکھنے چاہئیں یا نہیں، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ارشد ملک کے پاس سابق صدر آصف علی زرداری، فریال تالپور سمیت دیگر اہم کیسز ہیں توان پر کیا اثرات پڑینگے اس حوالے سے بھی بعض سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
کیا ارشد ملک فی الوقت ان کیسز سے دور رہینگے اور دیگر ججز کو یہ مقدمات سونپ دیئے جائینگے کیونکہ اس معاملے کو باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ انصاف کے حوالے سے مزید سوالات نہ اٹھائے جاسکیں۔