|

وقتِ اشاعت :   May 20 – 2014

اسلام آباد: طالبان کے مختلف گروپوں میں ہفتوں سے جاری اندرونی لڑائیوں کے باعث حکومت سے جاری امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے دو گروہوں کے درمیان مارچ سے بدترین لڑائیاں جاری ہیں جس میں افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقے میں کم از کم 90 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ غیر لکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اب شدت پسندوں کے مختلف حلقوں نے ان لڑائیوں کے خاتمے کے لیے طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ پر ثالث مقرر کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا ہے۔ اندرونی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اندرونی لڑائیوں نے طالبان قیادت کو وقتی طور پر امن مذاکرات ملتوی کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ شمال مغربی علاقے کے ایک طالبان کمانڈر نے تصدیق کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ دو حیف گروپوں میں جاری لڑائیوں کے خاتمے تک امن مذاکرات روک دیے گئے ہیں۔ تاہم اس تمام پیشرفت سے امن مذاکرات کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ نواز شریف حکومت نے طالبان کی جانب سے سات سال سے جاری شدت پسندی کے خاتمے کے لیے فروری میں مذاکرات کا آغاز کیا تھا۔ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ مارچ میں منظر عام پر آنے والی ٹی ٹی پی کی لڑائی جنوبی وزیرستان سے لڑی جا رہی ہے، اس جھگڑے کی اصل بنیاد محسود قبیلے کی قیادت ہے جہاں دونوں فریقین خود کو اس کا اصل حقدار سمجھتے ہیں۔ اس تنازع کے باعث سابقہ طالبان رہنما حکیم اللہ محسود کے ساتھی شہریار محسوس کی قیادت میں خان سید سجنا کے ساتھیوں کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں۔ حکیم اللہ محسود نومبر میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیے گئے تھے۔ کمنڈر نے بتایا کہ سجنا اور شہریار قبیلے میں جھگڑے کا مطلب محسود قبیلے میں اختلافات ہیں اور اگر یہ جاری رہتے ہیں تو اس کا طالبان کو بہت بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ دوسری جانب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ منتخب ہونے والے فضل اللہ نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ تک مسلح جدہجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ فضل اللہ نے ایک ویڈیو میں کہا کہ شریعت کے نفاذ تک ہمارا جہاد جاری رہے گا یا ہم شہید ہو جائیں گے۔