بلوچستان میں آج کل ہر طرف جلسے،جلوس اور دھرنوں کی ریل پیل ہے۔ حکمرانوں کو یہ ریل پیل کم جبکہ راہ چلتے لوگوں کوزیادہ دکھائی دے رہی ہے۔ خود پہ طاری گزشتہ ایک ماہ کی خودساختہ بندشوں سے آزادی پاتے ہی نظریں جب کوئٹہ کی مین شاہراہوں پر پڑیں تو سڑکیں سراپا احتجاج بن چکی تھیں۔ حکومت کے خلاف نعروں کو شاید ہی بند کانوں نے نہ سنا ہو مگر کوئٹہ کے در و دیواروں نے یہ آواز اپنے اندر محفوظ کر لیے۔ اساتذہ احتجاج پر، ڈاکٹر احتجاج پر، طلبا ء احتجاج پر، فارماسسٹس احتجاج پر، انجینیئرز احتجاج پر۔ غرض چاروں طرف احتجاجی مظاہروں کے درمیان حکومت مخالف نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔
ایک طرف بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی کے لیے تحریری امتحانات لیے جا رہے ہیں ہزاروں لوگ مستقبل کی تعلیمی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے قلم آزمائی میں مصروف ہیں وہیں اساتذہ کا پرہجوم نقشہ سراپا احتجاج انہیں نظر آر ہا ہے سوچتا ہوں کہ موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے مستقبل کی ذمہ داری کے خواب دیکھنے والوں کے ذہن میں کیا کیا سوالات آرہے ہوں گے۔
اساتذہ کا یہ احتجاجی مظاہرہ اور دھرناہاکی چوک (ایدھی چوک) پر بلوچستان سول سیکرٹریٹ کے سامنے جاری ہے۔ احتجاجی مظاہرے کو تمام اساتذہ تنظیموں کی مشترکہ کمیٹی (بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائیز ایکشن کمیٹی) کی حمایت حاصل ہے بلوچستان بھر سے اساتذہ جوق در جوق سفر کرکے کوئٹہ پہنچے تو ان کے مطالبات وہی تھے جو وہ پہلے دہرا چکے تھے جسے وہ دوبارہ دہرا رہے ہیں۔ اسکیل اپ گریڈیشن، مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ، ہاؤس الاؤنس کی بحالی سمیت دیگر کئی بنیادی مطالبات شامل تھے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان گوکہ اس وقت ملک سے باہر ہیں مگر ٹویٹر پر ان کے حسبِ معمول ٹویٹس سے یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ ان کا وجود یورپ میں جبکہ ان کی نظریں دھرنا مظاہرین پر ہیں۔ اور دھرنا مخالف ان کے ٹویٹس آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ شب حکومت نے دھرنا مظاہرین کی قیادت کو بلاکر ان سے مذاکرات کی تھی۔ حکومتی عہدیداران کا مؤقف تھا کہ مسائل کے حل کے لیے انہیں وقت دیا جائے۔
جبکہ وفد نے مؤقف اپنا یا کہ مطالبات تسلیم کرکے نوٹیفکیشن ابھی جاری کیا جائے (ماضی میں بھی حکومت اس طرح کی مذاکرات کے ذریعے حکومت مخالف مظاہرین سے وقت مانگ کر اپنے مؤفف سے انحراف کر چکی ہے جس کی ایک مثال پیرامیڈیکس کے ساتھ کیا گیا وعدہ تھا)۔ مذاکرات میں ناکامی کے بعد حکومت نے کوئٹہ شہر میں 144دفعہ نافذ کرکے دھرنے اور جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کی ہے۔ جس کے پیش نظر گرفتاری، لاٹھی چارج اور شیلنگ کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
اگر ایسا ہوا اور حکومت نے طاقت کا مظاہرہ کیا توحالات مزید بگڑ جائیں گے اور اساتذہ تنظیمیں جو صوبے بھر میں سب سے بڑی طاقتور تنظیموں کی شکل میں موجود ہیں اپنی نیٹ ورک کے ذریعے صوبے بھر میں تعلیمی اداروں کا نظام متاثر کریں گے جس کا اثر براہ راست بچوں کے تعلیمی سال پر پڑے گا۔ آخری خبریں آنے تک اساتذہ کا احتجاجی دھرنا ہاکی چوک پر جاری تھا۔
دوسری جانب بے روزگار انجینیرز کا احتجاج کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جاری ہے۔ احتجاجی کیمپ میں بلوچستان بھر کے انجینئرز اپنے مطالبات کے حق میں جمع ہیں۔ ان کا بھی مطالبہ یہی ہے کہ انجینیرز کو روزگار دیا جائے، وفاقی کوٹہ پر عملدرآمد کیا جائے۔ لاپتہ انجینیئرز کی بازیابی، پوسٹ اپ گریڈیشن اور دیگر بنیادی مطالبات شامل ہیں۔ یہ انجینئرز گزشتہ کئی روز سے کیمپ کا حصہ ہیں جن سے اظہار یکجہتی کے لیے مختلف مکاتب کیمپ کا رخ کرنے آتے ہیں۔
جبکہ ضلعی سطح پر دفاتر کی تالہ بندی کی جا رہی ہے۔ تاہم حکومتی سطح پر اب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں جا رہا ہے۔اساتذہ، انجینئرز، طلبا، فارماسسٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سراپا احتجاج ہیں۔ یہ احتجاج وہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں روزگار کے ذرائع موجود نہیں، روزگار کے حصول کے لیے نوجوان سرکاری ملازمتوں پر انحصار کرتے ہیں جبکہ برسرروزگار افراد کے مطالبات اپنی جگہ پر ہیں۔ ان کی تنخواہوں کا مسئلہ ہے۔
پروموشن اپ گریڈیشن اور دیگر مسائل اپنی جگہ موجود ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹوئٹر کی ڈرائیو سیٹ سے اتر کر زمینی حقائق کا حقیقی مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرے۔ اور طاقت کا مظاہرہ کرنے سے گریز کرے جس طرح ماضی میں کیا جاتا رہا ہے اور جس کے نتائج بھی بھگت چکے ہیں۔ مظاہرین کے جائز مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرکے نیک نامی کمائے۔