کھٹمنڈو: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری نئی رپورٹ میں جنوبی ایشیا کو دنیا میں سب سے کرپٹ ترین خطہ قرار دیتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اداروں کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے لیے اپنی اینٹی کرپشن یونٹ کو ضرور مضبوط کریں۔
مبصر ادارے نے بنگلہ دیش، ہندوستان، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکا میں بدعنوانی کا انسداد کرنے والے ادارے کی کوششوں میں سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔
گروپ کے ایشیا پیسیفک کے ریجنل ڈائریکٹر سری راک پلی پات نے کہا کہ کرپشن کی بنیاد پر جنوبی ایشیا دنیا کا بدترین خطہ ہے۔
ان تمام چھ ملکوں میں کرپشن کی روک تھام کے لیے عوامی ادارے بنائے گئے ہیں لیکن بجٹ اور ملازمین کی تعیناتی میں سیاسی مداخلت کے باعث ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
‘حکومت کی جانب سے قوانین کے عمل درآمد میں سیاسی عزم کی کمی کا مطلب ہے کہ کرپشن کے خلاف حکومت کارروائی میں بری طرح ناکام ہے۔
گروپ نے ان چھ ملکوں کی حکومتوں کو اینٹی کرپشن ایجنسی اور عدلیہ کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ تعیناتیوں، تبادلوں اور ادارے کے سربراہان کی تبدیلی آزادنہ اور شفاف انداز میں یقینی بنائیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سیاسی مداخلت کا مطلب ہے کہ ایجنسیز کی تحقیقات کا عمل انتہائی محدود ہے اور جنوبی ایشیا میں وہ طاقت سے محروم ہیں کیونکہ انہیں کسی جرم کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے لیے حکومت کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔
ٹرانسپیرنسی نے کہا کہ 2013 میں نیپال میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے وزیر اعظم کو تعینات کیا جس سے عدلیہ اور حکومت جیسے مختلف ادارے ایک ہی سکے کے دو رخ کا منظر پیش کرنے لگے۔ چیف جسٹس خل راج رجمی نے عہدے سے استعفیٰ تو نہ دیا لیکن مقدمات کی سماعت نہ کی۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں حکومت 2009 سے اب تک 48 ججوں کا سپریم کورٹ میں تقرر کر چکی ہے۔
رپورٹ می کہا گیا کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے حق کے قانون پر بحث جاری ہپے لیکن سری لنکا میں یہ ناپید ہے۔
مبصر ادارے کا کہنا تھا کہ انڈیا میں معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کو دھندلانے کی کوششیں کی گئیں۔
پلی پات نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ہندوستان کی نئی منتخب حکومت کا جائزہ لے گا کہ آیا وہ اپنے وعدے پورے کرتے ہوئے کرپشن کی راہ میں حائل ہوتی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی حکومت کو گزشتہ سال پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کیا گیا محتسب ایکٹ لاگو کرنے کے ساتھ ساتھ انسداد کرپشن بل سمیت عوامی تحفظ کے دیگر اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔