تحریک انصاف کی حکومت کی 25 جولائی کو پہلی سالگرہ تھی یہ دن حکومت نے یوم تشکر جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے یوم سیاہ کے طور پر منا یا،اپوزیشن نے چاروں دارالحکومتوں میں جلسے منعقد کئے،شیڈول کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت میں بھی جلسہ منعقد ہوا،کوئٹہ میں جلسہ بظاہر تو آل اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے رکھا گیا تھا لیکن جلسے کے دوران مریم نواز نے محمود خان اچکزئی کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ عیاں کردیاکہ در اصل محمود خان اچکزئی نے مریم نواز کو کوئٹہ میں جلسہ کرانے کی خصوصی دعوت دی تھی۔
مریم نواز کے خطاب سے قبل راقم دو تین دوستوں کے ہمراہ نواب نوروز خان اسٹیڈیم پہنچا ایک نظر حاضرین جلسہ پر دوڑائی جس میں سب سے زیادہ جھنڈیاں پشتونخواہ میپ کی لہراتی نظر آئیں،اسٹیج کے بائیں جانب نیشنل پارٹی کی چند جھنڈیاں دکھائی دیں جب کہ مسلم لیگ ن،جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کی جلسے میں حاضری فرضی سی لگ رہی تھی، ہم نے اپنے تئیں اخذ کیا چونکہ اکثر پشتون علاقے کوئٹہ سے قریب ہیں اسلئے پشتونخواہ کی حاضری زیادہ ہوگئی ہے لیکن محرک نے ہی جلسے کا قزیہ سنا دیا تو یقین ہوگیا کہ اس جلسے کی کامیابی کا سہرا اور ناکامی کا ملبہ پشتونخواہ کے سر ہی جانا تھا اس لئے زیادہ تر تعداد پشتونخواہ کے کا رکنوں کا تھا۔
اگر اپوزیشن جماعتیں تھوڑی سی مزید محنت کرتیں تو دگنے لوگ جلسہ گاہ میں نظر آتے، میرا یہ ماننا ہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، اے این پی اور جمعیت علما اسلام اپنے کوئٹہ کے تمام یونٹس کو جلسہ گاہ آنے کا پا بند بناتے تو تب بھی 15سے 20 ہزار لوگ جلسے میں موجود ہوتے،شاید حالات کی سختی نے کوئٹہ کے دعویدار جماعتوں کو مجبور کیا تھا ،مزے کی بات یہ تھی کہ جلسے سے ایک دن قبل تک ن لیگ کے سابق صدر اور وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کوئٹہ میں موجود تھے۔
جس دن جلسہ ہوا اسی دن نواب زہری کراچی کیلئے محو پرواز ہوگئے، نواب صاحب کی یہ بے رخی،بلوچ لج و میار و روایت کی سراسرنفی ہے، وہ روایت کہاں گئی جہاں ایک گلاس پانی سو سال وفا کا درس دیتی ہے، مجھے ایک پنجابی دوست نے طنزیہ کہا،
سنا ہے بلوچ روایات بدل گئے ہیں؟
میں نے لجاتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا،۔۔
جلسے کے اختتام پر میں نے اپنے ساتھی سے سر گوشی میں کہا
یار لوگوں کی تعداد کتنی ہوگی، آٹھ سے دس ہزار؟
اس نے سر کھجاتے ہوئے کہا شاید اتنی ہی !۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چونکہ یوم سیاہ کی کال اپوزیشن پہلے دے چکی تھی تو پروفیشن کی مجبوری یا سیاست سے لگاؤ کی وجہ سے ہم نے بھی ایک دن قبل اپنی روز مرہ سے ہٹ کر ایک دن کی ڈے پلان تر تیب دیدی، مریم نواز کے کوئٹہ آنے سے چند لمحے قبل ہم مقامی چار ستارہ ہوٹل پہنچے،لابی میں کچھ دیر ٹہلنے کے بعد سگریٹ سلگا لیا جس کے ختم ہونے سے پہلے ہی مریم نواز،محمود خان اچکزئی کو سامنے گاڑی سے اترتے دیکھا،ہم موبائل فون کا کیمرہ آن کرکے دونوں کے سامنے دیوار کی طرح آکر کھڑے ہوگئے،میرے کولیگ نے مریم نواز سے پوچھا،آخری بار آپ کے والد صاحب نے کوئٹہ میں جلسہ کیا تھا اسکے بعد بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت ختم ہوگئی،اب آپ جلسہ کرنے آئی ہیں،کیا لگتا ہے آگے کیا ہوگا۔۔۔۔؟
مریم نوازکا جواب سوشل میڈیا میں بہت زیادہ وائرل ہوا۔۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار نے جلسے سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ اگر پارٹی قیادت سے اجازت ملی تو دو عدد وزارتوں کو لات مار کر بلوچستان حکومت سے الگ ہو جائیں گے، نہ جانے میاں افتخار نے یہ اعلان جوش خطابت میں کیا تھا یا درون خانہ متحدہ اپوزیشن بلوچستان حکومت سے عوامی نیشنل پارٹی کے الگ ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے حالانکہ جلسے سے ایک دن قبل اے این پی بلوچستان کے سینئر رہنماء زمرک خان اچکزئی میڈیا کے سامنے کہہ چکا تھا کہ اپوزیشن کا جلسہ انکی حکومت کے خلاف ہے۔
اے این پی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے،ایک ہی دن میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی اور مرکزی قیادت کی جانب سے دو الگ الگ رائے سامنے آنے کے بعد امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اے این پی کی مرکزی قیادت اگر بلوچستان حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرتی ہے تو غالب امکان ہے کہ اے این پی کا بلوچستان میں حشر وہی ہوگا جس طرح نیشنل پارٹی کا نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہوا تھا، اس وقت اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی مرکزی قیادت کے ساتھ اور زمرک خان اچکزئی حکومتی صفوں میں کھڑے ہیں۔
وزیر اعلیٰ جام کمال اپوزیشن کے جلسے سے ایک دن قبل بلوچستان کے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر سے ملاقات کر چکے ہیں، جام کمال اور ملک سکند کی ملاقات میاں افتخار کے اعلان کو کسی حد تک تقویت پہنچاتی ہے، ظاہر سی بات ہے اگر اے این پی بلوچستان حکومت سے الگ ہوجاتی ہے تو جام حکومت کا خود کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا، آنے والے حالات دیکھ کرجام کمال حفظ ماتقدم کے طور پر ابھی سے ہی جے یو آئی کو قابو میں رکھنے کی سعی کر رہے ہیں۔
جام کمال حکومت سمجھتی ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کا اپوزیشن کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر مینگل کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئی ہیں یہی وقت ہے کہ بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کو بی این پی کے اتحاد سے الگ کرکے اسے اپنے حصے میں ڈالنا چاہئے، لیکن بلوچستان حکومت ایک چیز شاید بھول رہی ہے کہ موجودہ حکومت کے حوالے سے عوامی نیشنل پارٹی کی بہ نسبت مولانا فضل الرحمان کا موقف انتہا ئی سخت ہے،جام کمال کیلئے جمعیت کو اپنی حکومت کا حصہ بنا نا جو ئے شیر لانے کے برابر ہوگا، نہ ہی دوسری صورت میں جمعیت سے دیگر جماعتوں کی طرح بغاوت کرنا کسی بھی ممبر کیلئے آسان ہوگا۔
مرکز میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے یکم اگست کو چیئرمن سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد موو ہونا ہے اگر عدم اعتماد کی موومنٹ کامیاب ہوگئی تو میرا ذاتی خیال ہے کہ اسکے بعد اپوزیشن کا اگلا ٹارگٹ بلوچستان حکومت گرانے کی ہوگی، یہی خطرہ بلوچستان حکومت بھانپ چکی ہے اور وہ ابھی سے ہی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے،اس سے قبل سر دار اختر مینگل بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ جب چاہیں بلوچستان حکومت گر اسکتے ہیں، اگر اپوزیشن جام حکومت گرانے کی کوشش کرتی ہے تو اس میں سردار اختر مینگل کا کردار اپوزیشن کیلئے بڑا اہم ہوگا کیونکہ اختر مینگل کے بغیر اپوزیشن جام حکومت گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی،بی این پی،جمعیت اور عوامی نیشنل پارٹی جام حکومت گرانے کے اہم محرک ہوں گے۔