ریکوڈک معاہدے کی منسوخی کیس میں تقریباً6ارب ڈالر ہر جانے کی ادائیگی کے انٹر نیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آن انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس کے فیصلے نے ارباب اختیار کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے افغانستان و ایران کے سنگم پر واقع بلوچستان کے سرحدی شہر چاغی کے ریکوڈ ک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا شمار دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جس میں اب بھی ایک ہزار ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں اور جیالوجیکل سروے کے مطابق ریکوڈک سے روزانہ 15ہزار ٹن سونا اور تانبا نکالا جاسکتا ہے جس سے پسماندگی اور افلاس کے شکار بلوچستان اور قرضوں میں ڈوبے پاکستان کو سالانہ اربوں ڈالر آمد ن ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ 23جولائی 1993کو آسٹریلیا کی ایک مائننگ بی ایچ پی کمپنی کو چاغی میں معدنیات کی تلا ش کا لائسنس جاری کیا گیا اور کم گہرائی کی کھدائی پر ہی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت ہو گئے تاہم 2000ء ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کا منصوبہ آسٹریلوی کمپنی کی شیئر ز کی فروخت کے بعد اطالوی کمپنی ٹھیتان کاپر کمپنی کو منتقل ہو گیا۔
سی ٹی سی کے ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق ریکوڈک میں 1کروڑ 80لاکھ ٹن تانبے اور 3کروڑ 20لاکھ اونس کے اعلیٰ ترین معیار کا سونا موجود ہے 33لاکھ 47ہزار ایکڑ پر واقعہ اس منصوبے کا معاہدے صرف ڈرلنگ کیلئے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کیلئے اطالوی کمپنی ٹھیتان سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا‘اٹلی اوربرازیل کو فروخت کریں جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف 25فیصد حصہ ملنا تھا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد یہ معاہدہ منسوخ کیا گیا،تربت سے سابق رکن قومی اسمبلی اور جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولا نا عبدالحق بلوچ اور دیگر نے پہلے بلوچستان ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جس پر بلآخر 2013میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے ٹھتیان کمپنی کا لائسنس منسوخ کر کے معاہدہ کالعدم کردیا جس پر ٹھیتیان کمپنی عالمی عدالت انصاف چلی گئی۔
جہاں پر اس نے پاکستان پر 16ارب ڈالر ز ہر جانے کا دعویٰ دائر کیا تاہم انٹر نیشنل سینٹر فار سٹلمنٹ آف انویسمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ)نے اپنے فیصلے میں پاکستان پر 6ارب ڈالر جرمانہ عائد کرنے کا حکم دیا۔
ماہرین ارضیات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کا فیصلہ درست تھا کیونکہ ٹھیکہ دینے کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک اس میں بے قاعدگی اور کرپشن کی شکایات زبان زد عام تھیں جہاں ڈرلنگ کرنے والے کمپنی نے معاہدے سے تجاوز کیا کیونکہ حکومت وقت نے محض کانکنی پر اس کمپنی کو 75فیصد دینے کا معاہدہ کیا تھا حالانکہ سونا زمین میں مدفون قدرتی ذخائر میں سے دنیا کی مہنگی ترین معدنیات میں سے ایک ہے اس وقت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا ہر ایک نے خیر مقدم کیا اور صوبائی حکومت سمیت کسی نے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں کی۔
انٹر نیشنل سینٹر فار سٹلمنٹ آف انویسمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) میں طویل عرصے تک زیر التوا کیس کی پیروی کیلئے بلوچستان حکومت نے وکلاء کو 3ارب روپے ادا کیئے اور بلوچستان کی بد عنوان بیورکریسی اور وزیراعلیٰ ہاؤ س میں سالوں سے کلیدی عہدوں پر برا جما ن ایک مخصوص ٹولے نے جہاندیدہ اور معاملات کی گھتی سلجھانے والے قائد ایوان نواب اسلم خان رئیسانی کو اندھیرے میں رکھ کر مقدمے کی پیروی درست انداز اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں کی کیونکہ انہیں مقدمے کی کماحقہ پیروی کی بجائے بے جا سیر سپاٹوں اور عیش و عشرت سے فرصت نہیں تھا۔
وزیرعلیٰ ہاؤس کے عملے کے ساتھ وزراء‘ایڈوکیٹ جنرل‘منتخب و غیر منتخب نمائندوں اور بیو روکریسی کے سیکرٹریز سے لیکر غیر ضروری آفیسران مقدمے کی انٹر نیشنل سینٹر فار سٹلمنٹ آف انویسمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ)میں سماعت کے دوران امریکہ‘فرانس‘برطانیہ جاتے وقت کئی ملکوں اور شہروں کی سیر کر کے آجاتے اور انہوں نے ریکوڈک کو سنجیدہ لینے کی بجائے کرومائٹ اور کوئلے کی کانوں کی طرح ڈیل کرنے کے ساتھ نواب اسلم رئیسانی کو غلط گائیڈ کیا کہ پہاڑوں سے کانکنی کوئی مشکل نہیں اور یہ کام تو صوبائی حکومت با آسانی سے خود ہی کرسکتی ہے۔
چنانچہ ریکوڈک کیس کے فیصلے سے ملک کا بڑا نقصان ہوا اور موجودہ شرح سے بلوچستان کا جو بجٹ بن رہا ہے جرمانے کی رقم اس کی تین سال کے بجٹ کے برابر ہے۔وزیراعلیٰ جام کمال خان کے بقول ہم اس ہرجانے کی رقم کی ادائیگی کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن اس رقم کو دینا پڑے گا کیونکہ نہ دینے کی صورت میں پاکستان کو بین الااقوامی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جام کمال خان ہر مسئلے اور قضیئے کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو ٹھہراتے ہیں کہ صوبے میں معدنیات کے اپنے قواعد و ضوابط موجود ہونے کے باوجود جلد بازی میں ٹھیتان کمپنی کے ساتھ معاہدہ مسترد نہ کیا جاتا بلکہ کمپنی کو خلاف ورزیوں پر مرحلہ وارنوٹس جاری کیئے جاتے تب جاکر معاہدے کو منسوخ کیا جاتا تو شاہد بلوچستان کو نقصان اتنا نہ پہنچتا اب چونکہ ریکوڈک کیس میں جرمانہ عائد ہو چکا ہے۔
اس لیئے اب وزیر اعلیٰ جام کمال کو ہر معاملے میں پچھلے حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ماضی کے برعکس ایڈوکیٹ جنرل کی مشاورت،اپنے قانونی ٹیم اور مائنز ڈیپارٹمنٹ کے آفیسران کے ساتھ مل کر از سر نوفیصلے کا ہر پہلو سے فیصلے کا تفصیلی جائز ہ لینا چاہئے اور جہاں قانونی سقم پائے جائیں انہیں دور کر کے پوری تیاری کے ساتھ ٹی سی سی کے ساتھ ملکر باہمی گفت وشنید کے ذریعے زیا دہ سے زیادہ ریلیف حاصل کرنے کی تگ و دو کرنی چاہئے کیونکہ ٹھیتان کمپنی نے معاملے کو خوش اسلوبی سے تہہ کرنے کیلئے مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔
بلا شبہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ریکوڈک کیس میں بھاری جرمانے اور مالی نقصان کی تحقیقات کیلئے کمیشن کا اعلان مستحسن اقدام ہے مگر معاملہ صرف ریکوڈک کے 6ارب ڈالرز کے جرمانے کی ادائیگی تک محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ تمام ادوار میں ہونے والوں معاہدے کی تمام شقوں اور ذخائر کی قیمتوں کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بلوچستان حکومت کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔
ہمارے پڑوسی جنگ زدہ ملک افغانستان کے 2007میں سونا اور تانبے کے 3بلین ڈالرز کے معاہدے کیلئے بین الااقوامی ماہرین کی خدمات سے استفادہ کرنے کیلئے ہانگ کانگ میں انٹر نیشنل بڈنگ کے تجربے کو یاد رکھنا چاہئے مگرہماری حکومتوں کی عاقبت نا اندیشی اورغیر ذمہ دار حکام کی نا اہلی سے دنیا کے پانچویں بڑے سونے اور تانبے کے ذخیرے کے اتنے بڑے کنٹریکٹ کو انٹر نیشنل بڈنگ کے پروسیس کے بغیر ریکوڈ ک میں 160روپے فی ایکڑ کی حساب سے دیا گیاجس نے بلوچستان کو اس ہر جانے کے فیصلے سے ایک ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کیا۔
یقیناً یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسے صوبے کی بات ہے جس کے بچوں کی صحت کی صورتحال دیگر صوبوں کی نسبت انتہائی خراب ہے اور یہاں پیدا ہونے والے ایک ہزار بچوں میں سے 111بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں ہرسال 1لاکھ میں سے 850مائیں دوران زچگی مو ت کا شکار ہو جاتی ہیں اور صوبے میں دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔
دوسری طرف سوئی گیس کی قدرتی نعمت سے مالا مال ضلع ڈیرہ بگٹی میں کوئی گائنالوجسٹ اور لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 6ماہ کے قلیل عرصے میں 19خواتین اور نومولود بچے زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ صوبے میں کئی سالوں سے تعلیمی ایمرجنسی کے باوجودصوبائی دار الحکومت سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر مستونگ کے طلباء و طالبات نصف تعلیمی سیشن گزرنے کے باوجود تاحال 2019کی تدریسی کتب سے محروم ہیں۔
ان حالات میں بلوچستان کہاں سے 900ارب روپے کی ادائیگی کر سکے گا یقیناًریکوڈک کے قضیئے میں بیوروکریٹ‘سیاستدانوں اور وکلاء کا بلا تفریق احتساب ہونا چائیے اور مستقبل میں مطلوبہ مہارت‘تجربے اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بنا ء پر ہی افراد کا چناؤ ہونا چاہئے نہ کہ اقربا پروری‘ذاتی تعلقات‘پسند نا پسند کی بنا ء پر اور اس ضمن میں تحقیقاتی کمیشن کو اس جانب خصوصی توجہ دینی ہو گی کہ افسر شاہی،حکومتی نمائندوں اور وکلاء میں سے کون کون بلا وجہ مقدمے کی پیروی کیلئے حکومتی خزانے سے بیرون ملک جاتے رہے ہیں۔
اس لیئے کمیشن کو تمام پہلوؤں کا عرق زیری سے جائزہ لیکر معدنی ذخائر کے متعلق غفلت برتنے پرجامع تحقیقات کر کے ذمہ داران کا تعین کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں کوئی ہمارے زمین میں مدفون قیمتی خزانوں سے کھلواڑ نہ کرسکے۔
ریکوڈک معاملے میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا فیصلہ آنے پر سینیٹ میں دانشور سینیٹر مشتاق احمد خان اور بلوچستان اسمبلی کے متحر ک رکن ثناء اللہ بلوچ نے تحریک التوا جمع کروادی ہے اس لیئے ایوان بالا اور بلوچستان اسمبلی میں سیر حاصل بحث کر کے قومی مفادات اور بلوچستان کی محرومیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے متفقہ قومی موقف اپنانے کے ساتھ تحقیقاتی کمیشن کو بلوچستان حکومت کو آن بورڈ لیکر مستقبل کیلئے واضح حکمت عملی طے کرنے کے ساتھ سنگین غفلت میں ملوث تمام عناصر کو بلا امتیاز بے نقاب کرنا ناگزیر ہے۔