نریندر مودی کے انتخابات میں زبردست کامیابی کے ساتھ علاقائی منظر نامے میں ایک ہلچل دکھائی دے رہی ہے ۔ انتخابی معرکوں میں مودی نے پاکستان کے خلاف چھکے اور چوکے مارے اور سفارتی ماحول کو خراب کردیا ۔اس سے قبل نواز شریف کی طرف سے مبارک باد اور پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت کور عونیت کے ساتھ نظر انداز کیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر ہو ئے۔ پاکستان کے عوام کا یہ یقین ہے کہ جنگ کی صورت میں باہمی تنازعات کا کوئی حل نہیں نکلتا نظر آرہا ہے ۔ پاکستان نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں۔ 1948کی کشمیر جنگ ‘ 1965 اور 1971کی دو جنگیں جن میں پاکستان دولخت ہوگیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا ۔ اس لئے پاکستان کی اکثریت ‘ چند عسکریت پسند جہادیوں کو چھوڑ کر ‘ جنگ کے خلاف ہے اور باہمی تنازعات کا پر امن تصفیہ چاہتا ہے۔ یہی پیغام نواز شریف نے نریندر مودی کو روانہ کیا تھی جس میں ان کی انتخابی کامیابی پر مبارک باد اور ان کو پاکستان آنے کی دعوت دی گئی۔ یہ کسی کمزوری کی نشانی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی سوچ ہے کہ جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ صرف اور صرف دونوں ملکوں میں تباہی ہوگی ۔دوسری جانب بی جے پی کا طرز عمل زیادہ جارحانہ ہے اور آئے دن ان کے رہنماء پاکستان کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں جس سے ماحول میں زیادہ کشیدگی پیدا ہورہی ہے جو خطے کے ممالک کیلئے خوش آئند نہیں ہے ۔ انتخابی عمل کے دوران نریندر مودی کے بیانات اور تقاریر کو انتخابی عمل کا حصہ سمجھ کر پاکستان نے نظر انداز کردیا ہے ۔ جب وہ بھارت جیسے بڑے ملک کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں ان کو پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر حسن سلوک اختیار کرنا چائیے جو بھارت جیسے بڑے ملک کے شایان شان ہو ۔ بھارت حالیہ سالوں سے خطے کا پولیس مین بننے کا سوچ رہا ہے ۔ اس کے ساتھ بھارت اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کا خواب دیکھ رہا ہے یہ سب کچھ بھارت اس وقت کرسکتا ہے جب وہ اپنے پڑوسیوں خصوصاً پاکستان کو خوش رکھے گا اور اس کو دشمن نمبر ایک سمجھنا بند کردے گا۔تعلقات کو ماحول کے مطابق بہتر بنائے اور جنگی جنون کو ختم کرے گا۔ پاکستان کی یہ جائز خواہش ہے کہ ان کے مفادات کا نہ صرف خیال رکھا جائے بلکہ ان کا تحفظ کیاجائے۔ کشمیر کا قابل قبول حل اور دوسرے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے ۔ اس پس منظر میں وزیراعظم پاکستان اور ان کی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بھارت جائیں گے اور وزیراعظم نریندر مودی کی حلف برداری میں شرکت کریں گے۔ اور سائیڈ لائن میں بھارتی وزیراعظم سے دو طرفہ تعلقات اور متنازعہ معاملات پر بات چیت بھی کریں گے تاکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا عمل دوبارہ شروع ہو۔ انہی توقعات اور امیدوں کے ساتھ نواز شریف بھارت جائیں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے اور خطہ معاشی ترقی کی جانب گامزن ہو ۔ بہر حال پاکستان کا کوئی بھی لیڈر اور حکومت یہ تصور نہیں کرسکتا کہ وہ بھارت کے ماتحت رہ کر ان کے احکامات مانے اور پاکستان کو بھارت کا ذیلی ریاست بنایا جائے ۔ یہ غلط فہمی دور ہونی چائیے کہ پاکستان کمزوری کے باعث بھارت کا زیر دست ریاست بننے کو تیار ہوگا۔ پاکستان ایک چھوٹا ملک نہیں ہے یہ بیس کروڑ افراد پر مشتمل ایک ایٹمی قوت ہے اس ملک کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے فوجی حملہ یا یلغار کا مقابلہ کرے اور حملہ آور کومار بھگائے اور ملک کا دفاع کرے ۔ لہذا دوران ملاقات نریندر مودی یہ کوشش نہ کرے کہ وہ پاکستان پر حکم چلائے گا یا پاکستان کو کوئی غیرپسندیدہ پیغام دے گا۔