بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلے یہاں کے عوام کا حق ہے اور بلوچستان کو حق حاکمیت دی جائے، یہ وہ خوش کن نعرہ ہے جو70 سال گزرنے کے بعد بھی ہ میں تازہ لگتا ہے ۔
ہائیوں پر محیط بلوچستان کے مسائل پر پاکستان کی سب سے بڑی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے بیانات ماضی کی طرح آج بھی چند لفظوں کے ہیرپھیر سے وہی ہیں ۔ بلوچستان کو سمجھنے کی ضرورت ہے‘ بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرکے ہی امن وخوشحالی آسکتی ہ ۔
بلوچستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے‘ بلوچستان پاکستان کی ترقی کی کنجی ہے‘ ایسے بے شمار جملے تقریر کرتے وقت بڑے بڑے لیڈران ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ اس وقت زیادہ شور کرتے ہیں جب اقتدار کی کرسی ان کے پاس نہیں ہوتی، اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد ان تمام جملوں کی الٹ باتیں سامنے آتی ہیں ، بلوچستان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرینگے ۔
بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے کیلئے میگا منصوبے شروع کیے جارہے ہیں ، بلوچستان کے عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرینگے ۔ آج بھی بلوچستان مسائلستان بنا ہوا ہے، ایک چھوٹی سی مثال ’’گوادر‘‘ہے جس کی ترقی کا شوشاگزشتہ چند برس پہلے ایسے زوروں پر تھا پھر یکدم خاموشی سی چھاگئی گویا کہ سی پیک منصوبہ شاید اب ختم ہوگیا ہے ،یہ الگ بات ہے ۔
کہ اچانک کوئی بڑی تقریب منعقد کی جائے گی پھر سی پیک کی یاد نہ صرف حکمرانوں بلکہ عام لوگوں کے ذہن پر تازہ ہو گا کہ ہمارامستقبل تو روشن ہے اور چند روز تک یہ دلجوئی رہے گی مگر زمینی حقائق اس قدر تلخ ہیں کہ جو اچانک انکشافات کی صورت میں سامنے رونما ہوجاتے ہیں ۔
پھر سب دنگ رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہوا;238; حال ہی میں ریکوڈک منصوبہ پر لگنے والے جرمانہ سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے چند ایک بڑے ذخائر میں اس پروجیکٹ کا شمار ہوتا ہے مگر اس سے حاصل تو بلوچستان نے کچھ نہیں کیا البتہ 6 ارب ڈالر سے زائد کا جرمانہ غریب صوبہ کے گلے پڑگیا ۔ حکمرانوں کو اس جانب توجہ دینا ضروری ہے اور تمام حقائق کو عوام تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے وسائل اور منصوبوں سے ہ میں کیا حاصل ہورہا ہے جبکہ بلوچستان میں جاری منصوبوں کے اصل معاہدوں میں ہمارے لئے کیا موجود ہے ۔
کتنا محاصل صوبہ کو ملنا تھا اور کتنا مل رہاہے ۔ بلوچستان میں صرف سیندک پروجیکٹ کی مثال لی جائے کہ اب تک اس سے بلوچستان کو کیا فائدہ پہنچا;238;بلکہ غالب امکان یہی ہے کہ سیندک پروجیکٹ سے متعلق حساب کتاب کا علم حکمرانوں کو بھی نہیں ہے ، بلوچستان کی اس عظیم ذخیرے کوچین کے حوالے کردیا گیاہے ،اس کی بوٹیاں وفاق اور چین مل کر کھارہے ہیں اور صرف دو فیصدحصہ خیرات کے طور پر بلوچستان کو دیاجارہا ہے ۔
حسب روایت بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا ذمہ دار وفاق کو ٹہرایا جاتا ہے مگر یہ باتیں اس وقت کی جاتی ہیں جب اقتدار اور وفاقی حکومت کے ساتھ یہاں کی جماعتوں کی قربت اور اتحاد ختم ہوجاتی ہے تب تک چھپ کا روزہ رکھا جاتا ہے جسے بلوچستان کی نمائندگی نہیں بلکہ بدنیتی سمجھی جائے گی ۔ بلوچستان کے وسائل کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ہے کسی ایک پر اس کا ملبہ نہیں ڈالا جاسکتا ۔
کیونکہ عوام نے دونوں کو مینڈیٹ دے کر ایوان مےں بھیجا ہے تاکہ عوامی مفادات اور بلوچستان کے وسائل کے تحفظ کیلئے قانون سازی کریں ۔ ریکوڈک میں غفلت برتنے والوں کا بھی تعین کیا جائے جس طرح بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک پیش کی گئی ہے یہ ایک بہترین عمل ہے اور حکومت بھی اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرے کہ ریکوڈک کو نقصان پہنچانے والے کون ہیں تاکہ دیگر منصوبوں کے ساتھ ایسا نہ ہو ۔