عید کی آمد آمد ہے کوئٹہ کی تمام تر رونقیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ ملازم پیشہ افراد گھروں کا رخ کر رہے ہیں کوئٹہ کی سڑکیں سنسان مگر سکھ کا سانس لیتی دکھائی دے رہی ہیں تصور سے کہیں زیادہ یہ شہر خالی خالی سا لگ رہا ہے۔ شہرِ کوئٹہ سے نکل جانے کا سوچ رہا ہوں کہاں کا رخ کیا جائے ذہن میں کئی عکس نمودار ہوتے ہیں زیارت کا خیال آتا ہے تو سب چیزیں منجمد ہوجاتی ہیں اور دماغ فیصلے کو قبول کرتا ہے کل عید ہے سو زیارت کی زیارت کے لیے رختِ سفر باندھتا ہوں۔
زیارت کا علاقہ مَنہ (Manna) خوبصورت مگر خاموش تصور کیا جاتا ہے۔ موبائل کی ریڈیائی لہریں کہیں کہیں کم پہنچ پا تی ہیں۔ نیٹ ورک کو دسترس میں لانے کے لیے لوگوں نے مخصوص پوائنٹ بنا رکھے ہیں ان مخصوص پوائنٹس پر وہ مطلوبہ حصول کی رسائی میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہوا نہ دلچسپ سلسلہ۔ موبائل کی اس خاموشی کومیں نے غنیمت جانا، کتابوں کی دیدار کرتا گیا۔ خاکے پڑھتا گیا۔ خاموش فضاؤں سے لطف اندور ہوتا رہا۔ کم آکسیجن زدہ وادی بھرپور نیند کے لیے آکسیجن فراہم کرتا گیا۔ سوچتا رہا کہ قلتِ نیند کے شکار لوگ خواب آور گولیاں کھانے کے بجائے ان علاقوں کا رخ کیوں نہیں کرتے؟
باغات ہیں، آبشار ہیں، پہاڑی چوٹیاں ہیں، جونیپر کے جنگلات ہیں، چیری اور سیب سے لدے باغات ہیں، حسین وجمیل وادیاں ہیں بانہیں پھیلائے من کو چھوتے بادل ہیں۔ قدرت اس گاؤں پر کچھ زیادہ ہی مہربان ہو ا ہے۔ کسی اور دنیا میں گم ہوجانے کا گمان پیدا ہوتا ہے۔ بادلوں نے برسنا شروع کیا ہے۔ ٹین کی چھت پر پڑتی بوندیں وجود کے اندر ایک ہلچل سی پیدا کرتی ہیں۔ ایک اور خاکہ وجود کو تر کرتا ہوا چلا جاتا ہے۔ ان تخلیقات کو ایک ناول نگار اپنی تخلیق کا حصہ بنا سکتا ہے بشرطیکہ وہ ان مناظر کو اپنی نگاہوں میں جذب کرے۔پکی سڑکیں ہیں، گیس ہے بجلی کا مخصوص دورانیہ ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیمز ہیں اور منہ ڈیم برساتی پانی سے اپنا وجود تر کرکے دو سالہ خشکی کا ازالہ کرتا ہوا نظر آتاہے۔
پشتون آبادی کا علاقہ ہے 100فیصدبولی پشتو ہے ایک قلیل آبادی ہے جو بین الاقوامی یعنی اشاروں کی زبان میں بات کرتا ہے۔ گویائی سے محروم یہ طبقہ گونگا کہلاتا ہے گویائی کے ساتھ ساتھ ان میں زیادہ تر لوگ سماعت کی دولت سے محروم ہیں۔ منہ کی آبادی ان کے ساتھ اشاروں کی زبان میں ہی بات کرتا ہے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں ان کے لیے معاشی، سماجی، تعلیمی بندھنیں ہیں نظام میں مکمل شرکت کا تصور ختم ہوجاتا ہے تو وہیں معاشرتی بے حسی اور حکومتی لاتعلقی ان کے مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
محمد حنیف کاکڑ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں معذور افراد سے متعلق انہوں نے کئی سال پہلے ایک رف سروے کیا تھا گونگے اور بہرے افراد کی تعداد وہ 100سے زائد بتاتے ہیں جو اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ”معاشرے کے ان معذور افراد کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تعلیم اور روزگار کا ہے۔ پرائمری سطح پر یہ داخلہ تو لے لیتے ہیں مگر اسکولوں کے اندر ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے یہ ایک سال کے اندر اسکول چھوڑ جاتے ہیں“۔
محمد حنیف مقامی تعلیم کا ریشو 95فیصد بتاتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول موجود ہیں مگر اس نظام میں بہرے اور گونگے کہیں نظر نہیں آتے۔پورے علاقے میں ان معذور افراد کے لیے ایک بھی ایک تعلیمی ادارہ یا اسپیشل ٹیچر موجود نہیں جس میں ان کو خصوصی تعلیم دی جا سکے یہی وجہ ہے علاقے میں ایک بھی معذور ایسا نہیں جو میٹرک تک تعلیم حاصل کر چکا ہو۔اس کی بنیادی وجہ محمد حنیف اہلِ علاقہ کی عدم دلچسپی اور حکومتی لاتعلقی قرار دیتے ہیں جو انہوں نے معذور افراد کی تعلیم و تربیت سے متعلق روا رکھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پورے گاؤں کا معذور طبقہ حکومتی اعلان کردہ معذور روزگار کوٹے سے فائدہ اٹھا نہیں پاتا۔ گاؤں مَنہ سے اب تک تین امیدوار ایم پی اے مولوی جان محمد مرحوم، سابق صوبائی وزیر خوراک مولوی نور محمد اور سابق صوبائی وزیر جنگلات مولوی عبدالصمد صوبائی اسمبلی کے زینے پر چڑھ چکے ہیں مگرحلقہِ معذوران کا یہ شعبہ حق رائے دہی استعمال کرنے کے باوجود نمائندگان کی ترجیحاتی فہرست میں شامل ہونے سے محروم رہا اور اسی رویے کا سامنا ان معذوران کو علاقے کے موجودہ ایم پی اے سے بھی ہے۔
معذوروں کے لیے مؤثر طور پر آواز اٹھانے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جاتا ہے۔ چند سال قبل جب ایک مقامی تنظیم معذوروں کا ڈیٹا جمع کرنے منہ آیا توامید کی ایک کرن پھوٹ پڑی مگر اس کا عملی ثمر معذوروں کو نہیں ملا اور معذوروں کا یہ معاملہ سردمہری کا شکار رہا اس کی بنیادی وجہ مقامی لوگ ان تنظیموں کی ذاتی ترجیحات اور خانہ پوری کو قرار دیتے ہیں۔
منہ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مارکیٹ ہے جو زندگی کی بنیادی ضروریات سے لیس ہے۔ پٹرول پمپ، اشیاء خوردونوش اور ایک چائے کا ہوٹل جو مقامی لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اس مارکیٹ کا حصہ ہیں۔ ہوٹل لوگوں کی قیام گاہ اور بیٹھک لگانے کا اہم ذریعہ ہے خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر ڈھونڈنے سے ایک بھی دوکان ایسی نظر نہیں آتی جو گونگے یا بہرے کی نمائندگی کرے۔ وہاں کھڑے ایک گاہک سے معذور دوکاندار کی ندارد سے متعلق سوال پوچھا تو جواب مایوس کن تھا ”بھلا معذور بھی کوئی دوکان چلا سکتے ہیں“ تو ذریعہ معاش کے لیے گویائی اور سماعت سے محروم معاشرے کا یہ طبقہ کرتا کیا ہے؟ جواب ملا ”مزدوری“۔
55سالہ محمد صادق نہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے مگر ذریعہ معاش کے حصول کے لیے وہ چیری کے درختوں کی پیوندکاری کرتا ہے۔ اس کام کے لیے وہ باقاعدہ معاوضہ لیتا ہے۔ مہارت کا یہ کام وہ اپنی ذاتی تجربوں سے حاصل کر چکے ہیں۔ ایسے افراد کی تخلیقی صلاحیتوں سے ہماری حکومت کام کیوں نہیں لیتی ورنہ معذور ذہانت کے شاہکار ہوا کرتے ہیں۔
شام کا وقت ہے مجلس گاہ میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے سماعت اور گویائی سے محروم 50سالہ محمد قاسم ہمارے چہروں کے تاثرات کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کررہا ہے مگر وہ سمجھ نہیں پارہا اپنے قریبی ساتھی سے وہ اشاروں کی زبان میں معلوم کرنے لگتا ہے محفل کا ساتھی اشاروں کی مدد ہی سے انہیں سمجھارہا ہے۔
مجلس طول پکڑتا ہے تو قاسم ہماری محفل سے بور ہوتا ہے اور اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ میں اپنے قریبی ساتھی سے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں تو کہا جاتا ہے کہ گفتگو ان کی سمجھ سے باہر تھی اٹھ کر چلے گئے۔ قاسم کا ذریعہ معاش ان کے باغات سے ہے مگر وہ بولی بولنے والوں کی نسبت فصل کا بہت کم فائدہ اٹھاتے ہیں۔وجہ بنیادی معلومات سے لاعلمی ہے۔ قاسم کا بڑا بھائی صادق بھی گویائی اور سماعت سے محروم تھا کہتے ہیں کہ ایک بار گھر والوں سے کسی بات پر ناراضگی ہوئی حساس نکلے کنویں کے اندرچھلانگ لگا کر جان دے دی گاؤں میں خودکشی کا یہ پہلا واقعہ تھا جو صادق اپنے نام کر گیا۔
گاؤں منہ میں کئی گھرانے ایسے ہیں کہ جن میں معذوروں کی تعداد تین یا اس سے زیادہ ہے۔ کہیں والدین تندرست ہیں تو وہاں بچے اس معذوری کا شکار ہیں اور کہیں معذور افراد کی بطن سے غیر معذور بچے جنم لے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔مسئلہ جینیاتی ہے یا ماحولیاتی اس پر تاحال تحقیق نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس مسئلے کو زیرموضوع یا زیرِ ترجیح لایا جا چکا ہے۔ ایک مرتبہ ایک فقیر گاؤں کی یاترا پر آئے تو لوگوں نے فقیر سے گزارش کی کہ وہ بتائے کہ گونگوں کی تعداد یہاں زیادہ کیوں ہے تو بتایا اس لیے کہ علاقہ جنوں کا تھا انسان اس پر قابض ہوگئے۔ اب خدا جانے فقیر کی بات پر کتنے فیصد لوگوں نے یقین کیا ہوگا اور کتنوں نے ہنس کر ٹالا ہوگا مگر جب بھی گونگوں کا ذکر چھڑتا ہے تو فقیر کی کہانی ضرور دہرائی جاتی ہے۔ جب یہی سوال لوگوں سے کیا جائے تو کہا جاتا ہے”بس خدا کی مرضی ہے اس کی مرضی کے آگے سب بے بس ہیں“