کراچی: پاکستان موبائل صارفین پر ٹیکسوں کے بوجھ کے لحاظ سے دنیا کے سرفہرست ملکوں میں شامل ہوگیا ہے۔
گزشتہ چند سال کے دوران پاکستان میں ٹوٹل کاسٹ آف موبائل اوونرشپ ( ٹی سی ایم او) میں 147فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ٹی سی ایم او ایک گلوبل بینچ مارک ہے جس کے ذریعے دنیا کے کسی بھی ملک میں موبائل فون کے استعمال پر عائد محصولات سے صارف کے لیے موبائل فون سروس کے حصول اور استفادے میں آسانی اور مشکلات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ٹیلی کام انڈسٹری کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چند سال کے دوران موبائل فون سروس پر عائد سیلز ٹیکس میں 30فیصد اضافہ ہوا ۔
جبکہ سال 2012-13کے مقابلے میں ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سیلولر انڈسٹری پر ٹیکسوں کی بھرمار اور امتیازی ٹیکسوں کی وصولی نے پاکستان کو ٹیکسوں کی بلند شرح کے حامل سرفہرست ملکوں میں شامل کردیا ہے جس سے نہ صرف انڈسٹری کی ترقی کی رفتار متاثر ہورہی ہے بلکہ نیکسٹ جنریشن تھری جی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں بھی مشکلات کاسامنا ہے۔ موبائل آپریٹرز کی گلوبل ایسوسی ایشن جی ایس ایم اے کی تحقیق کے مطابق ترقی پذیر ملکوں میں موبائل فون کی سہولت کے نفوذ میں 10فیصد اضافہ اس ملک کی جی ڈپی میں 1.2فیصد اضافے کا سبب بنتا ہے۔ ٹیکسوں کی بلند شرح کے سبب آپریٹرز کا منافع محدود ہو رہا ہے ۔
جس سے نیٹ ورک کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، ٹیلی کام سیکٹر کی سرمایہ کاری پر ریٹرن کم ہونا پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے بھی خدشات کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان میں تھری جی ٹیکنالوجی کے لیے بھاری مالیت کی سرمایہ کاری کی گئی ہے تاہم ٹیکسوں کی بلند شرح کے سبب صارفین کی قوت خرید کم ہونا تھری جی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے، تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے موبائل ڈیٹا ٹرانسفر میں نمایاں اضافے کی توقع ہے، موبائل ڈیٹا کا حجم دگنا ہونے کی صورت میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 0.5فیصد اضافہ ہوگا تاہم اس کے لیے ٹیکسوں کو مناسب سطح پر لانا ہوگا۔ ٹیلی کام انڈسٹری نے حکومت پر زور دیا ہے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیلی کام انڈسٹری پر عائد ٹیکسوں کی شرح اور امتیازی ٹیکسوں پر نظرثانی کی جائے بصورت دیگر حکومت اور انڈسٹری دونوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انڈسٹری کی جانب سے حکومت کو دی گئی بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سستے ترین کال ریٹ کے ساتھ دنیا میں ٹیکسوں کی بلند ترین شرح کا حامل ملک بن چکا ہے، پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر پر 19.5فیصد سیلزٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، 15فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس، 250 روپے ایکٹیویشن چارجز عائد ہیں جبکہ لائسنس فیس، یونیورسل سروس فنڈ لیوی اور ریگولیٹری فیس کی شکل میں اضافی ٹیکسز بھی عائد ہیں۔ ملک میں 13کروڑ 60لاکھ سے زائد سبسکرائبرز میں سے 80فیصد قابل ٹیکس آمدنی کی حد سے نیچے ہیں، اس کے باوجود تمام سبسکرائبرز سے 15فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کیا جارہا ہے، 2004سے 2012-13تک ٹیلی کام انڈسٹری مجموعی طور پر 990ارب روپے کے محصولات ادا کرچکی ہے ۔
تاہم اب ٹیکسوں کی بھرمار اور امتیازی ٹیکسوں کی وصولی انڈسٹری کی گروتھ کی راہ میں آڑے آرہی ہے، آئندہ بجٹ میں پالیسی سازوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ ٹیلی کام انڈسٹری کی ترقی کی رفتار جاری رکھی جائے یا پھر معاشی ترقی اور جی ڈی پی کی شرح نمو میں اہم کردار کے حامل اس شعبے کو محدود کردیا جائے۔ انڈسٹری نے بجٹ تجاویز میں کہا ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر پر عائد 19.5فیصد سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو کم کرکے دیگر شعبوں کے برابر 17 فیصد کی سطح پر لایا جائے، ایڈوانس انکم ٹیکس کی شرح 15فیصد سے کم کر کے 10فیصد کی سطح پر لائی جائے، سم کے اجرا پر عائد 250روپے کے ایکٹیویشن چارجز ختم کرکے موبائل فون سیٹ پر عائد کیے جائیں۔
اس طرح انڈسٹری کی لاگت میں کمی ہوگی تاہم حکومت کے ریونیو میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، اسی طرح بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے کوائف کی تصدیق کے لیے نادار کے چارجز کم کرکے 13روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پاکستان میں ٹیلی کام انڈسٹری پر ٹیکسوں کی شرح کم کرنے سے موبائل فون کا استعمال بڑھے گا جس سے انڈسٹری اور حکومت دونوں کے ریونیو میں اضافہ ہو گا، ساتھ ہی جی ڈی پی کی شرح نمو بھی تیز ہوگی۔