|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2019

نام سے اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ آج کی بات کدھر کو جانی ہے۔ جب آپ کو خود بولنا نہ آتا ہو تو پھر آپ دوسروں کو ہی سنتے اور دیکھتے ہیں۔ بس تو یہی میرا بچپن کا مشغلہ ہے چپ کر کے کسی کونے بیٹھ جانا اور لوگوں کو سننا اور دیکھنا اور پھر اس پر سوچ بچار کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش کرنا۔ اس چکر میں کئی ڈائریاں بنا ڈالیں اور کئی صفحات کالے کیے اور اب تک کر رہی ہوں مگر تلاش ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔

ہاں تو بات یہ ہے کہ بچپن سے یہ چیز میرے مشاہدے میں رہی ہے کہ ہم لوگ فطرتی تنقیدی زیادہ ہیں۔ ہم مشکل سے ہی کسی کو سراہتے ہیں وہ بھی اگر کسی مجبوری کے تحت سراہنا پڑ جائے۔ پھر اگر کبھی کسی کیلئے یا اسکے کام کیلئے تعریف کے دو بول لیں تو دو ہفتے تک غش ہی پڑے رہتے ہیں۔

باہر بڑے بوڑھے سب بات بات پر ایک دوسرے کو شکریہ شکریہ کہتے نہیں تھکتے۔ وہ نہ صرف ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے کام کو سراہتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں اگر ہمارے بچے کو کبھی کہیں کسی کو شکریہ یا کسی کیلئے کوئی تعریفی جملہ بولنا پڑ جائے تو پہلے تو وہ دو گھنٹے شرمائے گا پھر یوں گویا ہو گا جیسے بول کر کسی پہ احسان کر رہا ہو۔

اپنی ہی بات کر لیتے ہیں مجال جو بچپن میں کسی کے کام کی تعریف کی ہو۔ یوں لگتا تھا کہ کسی کی تعریف کرنے کا مطلب ہے آپ خود کچھ نہیں ہیں۔ ہمیشہ سکول کالج، گلی محلے میں دیکھا تھا کہ جتنے بڑے لوگ ہونگے اتنے غصیلے ہونگے ہر وقت بس منہ بنائے رکھیں گے۔ بات بے بات دوسروں پر رعب جھاڑیں گے کہ انہیں کچھ نہیں آتا۔مسکرانا تو جیسے منع ہو انہیں، مجال جو کسی بات پر مسکرا دیں۔

بڑا استاد ہونے کی یہ نشانی ہے کہ آپ نے کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرنی ہے۔ جسکا جتنا بڑا عہدہ ہوگا وہ اتنا ہی چھوٹوں کو ذلیل کرے گا اور ان پر دھاک بٹھائے گا۔ میں نے تو تمام بڑے لوگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے، بس یہی بات دماغ میں رہی،اگر بڑا بننا ہے تو کسی کی تعریف نہیں کرنی بلکہ اگرکسی نے اچھا کام کیا ہو تو بھی اس میں کیڑا نکالنا ضرروی ہے۔ کوئی بیشک کام کر کر کے مر جائے مگر آپ نے سراہنا نہیں ہے، ایسا کرنے سے آپکا وقار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

مگر بڑے ہو کر جب غور کیا تو پتا چلا کہ ایسے شخص کے پاس دولت اور رتبوں کا انبار تو ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ انسان کوئی نہیں ہوتا۔ لوگ دولت اور مرتبے کی وجہ سے تو اسکو پوجیں گے مگر جیسے ہی یہ دولت اور رتبہ ختم تو سب ختم پھر پیروں میں رہنا اسکا مقدر۔ کسی بھی شخص کی دولت یا رتبے کی وجہ سے کوئی عزت نہیں کرتا بلکے وہ تو بس دکھاوا ہوتا ہے محض دکھاوا۔

ٹانگ کھینچنا ہمارا پسندیدہ کام ہے، ہماری سیاحت ہو یا سیاست، کاروبار ہو یا نوکری ہر جگہ ہم نے بس دوسروں کی ٹانگ کھینچنی ہے۔ ہم دوسروں کو گرانے کیلیے تو ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گے مگر اگر کسی کام کیلیے ذرا سی محنت کرنی پڑ جائے تو غش پڑ جائے۔ ہمارے دفاتر ہوں یا ہمارے گھر ہر جگہ بس ہم دوسروں کی ٹانگیں ہی کھینچ رہے ہیں۔ نہ خود کچھ کرنا ہے اور جو بیچارہ ہمارے بیچ پھنس کر بھی کچھ کرنا چاہتا ہے ہم اسکو بھی آگے بڑھنے نہیں دیتے اسکی بھی ٹانگیں کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں ہم دوسروں کی ٹانگ کھنچنے پر اتنا اعتقاد رکھتے ہیں۔۔ شاید اس کی بجائے اگر ہم کسی کام پر توجہ دے لیں تو ہمارا کچھ بن جائے مگر ہم نے تو نہ خود آگے جانا اور نہ کسی اور کو جانے دینا۔

ہمارے معاشرے کو شاید ہی اتنا نقصان کسی اور چیز کی وجہ سے پہنچا ہو جتنا اس ٹانگ کھینچنے کے رویے (leg-pulling)سے ہوا ہے۔ ایک بندہ دن رات کر کے محنت کرتا ہے تاکہ زندگی میں کسی قابل بن جائے۔ اب دوسرے ہم جیسے لوگ جو اس کے اردگرد ہونگے جن کا یوں تو فرض بنتا ہے کہ اسکا حوصلہ بڑھائیں تاکہ وہ مزید اچھے سے اپنا کام کرے مگر ہم کیا کریں گے، الٹا حوصلہ بڑھانے کے ہم حوصلہ پست کرنے لگ جائیں گے۔ اس کی ذرا سی غلطی کو بڑھا چڑھا کر بتلائیں گے۔ دن رات اسے احساس دلائیں گے کہ وہ کتنا غلط کر رہا ہے۔

پھر اگر کہیں کوئی کسر رہ گئی تو وہ دوسروں کو اسکے خلاف کرکے پوری کر دیں گے۔ وہ کیا کہتے ہیں ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبے گیں والا حساب ہے ہمارا۔ ہمارے اسی رویے کی وجہ سے کوئی کام کرنے والا بندہ یہاں رکتا ہی نہیں، جسے موقع ملتا ہے باہر جانے کا وہ فوراً چلا جاتا ہے کیونکہ اسے پتا ہے وہاں ایسا ٹانگیں کھینچنے اور حوصلے پست کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔

ہم عجیب لوگ ہیں کہ ایک دوسرے کو اپنے دکھ درد اور خوشی میں شریک کرنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ ہم ایسے لوگ ہیں جو خوشی تو خوشی غم میں بھی کسی کو اذیت دینے سے باز نہیں آتے۔ آنکھوں دیکھی بات ہے ادھر فوتگی کا موقع ہے، کسی کا جوان بیٹا مر گیا ہے اور اسے سہارا دینے کی بجائے ہم کہیں گے، بھئی تمہارا اب کیا بنے گا۔ تم تو برباد ہو گئے ہو بہتر یہی ہے تم بھی مر جاؤ۔ شادی کا موقع ہو تو ادھر غلطی سے جو دولہا دلہن مسکرا دیں۔ بس ہم نے تو پھر شروع ہو جانا ہے، بھئی مسکرا لو جتنا مسکرانا ہے پھر تو ساری زندگی پچھتانا ہی ہے۔ بندہ کوئی اچھی دعا دے دے یا کوئی اچھی بات ہی کر دے مگر ہم نے تو کوئی ایسی بات ہی کرنی ہے جو دوسرے کو چار دن تک اندر سے جلاتی رہے۔

کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو کیوں کر رہا ہے؟ اس طرح تو وہ ہم سے آگے نکل جائے گا۔ بس جی سب کچھ بھول بھال کر ہم اسکے راستے کی روڑے بن جائیں گے۔ پھر اگر کوئی نیا کام کر رہا ہے تو مسئلہ اور بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی اور شخص کوئی کام کیسے کرسکتا ہے۔ ہمارے اسی رویے کی وجہ سے ہم اتنے پیچھے ہیں۔ اب نہ ہم خود آگے بڑھ رہے ہیں نہ کسی اور کو بڑھنے دے رہے۔ ہم بس ہر جگہ ٹانگ کھینچنے کے فارمولے پر کام کر رہے ہیں۔

جس کی وجہ سے ہمارا ہر شعبہ ہر طبقہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ نہ ہماری سیاست اس سے پاک ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ چند کالی بھیڑوں نے سب کا جینا دوبھر کردیا ہے اب ایسے میں کوئی کچھ کرنے کا سوچے تو یہ کالی بھیڑیں فوراً اس کی ٹانگیں کاٹنا شروع کر دیتی ہیں۔ ذرا سی بھی برائی کہیں دِکھ جائے بس بھئی،ہم تو دن رات اس کا پرچار کریں گے۔ دوسری جانب کوئی اچھا کام کر کر کے آدھا ہو گیا ہے مگر ہماری اس کی طرف نظر نہیں جاتی۔یہاں اگر تو آپ نے کھانا پینا اور موج کرنا ہے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں مگر اگر آپ نے کام کرنا ہے۔

اور نام کرنا ہے تو پھر بھول جائیں، اردگرد کون لوگ ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ آپ کا کام ہے، بس کام کرنا سو آپ چپ کرکے سر پھینک کر لگے رہیں۔ مت دیکھیں کہ راستے میں کون ہے، کیسا ہے بس کام پر توجہ دیں تبھی آپ کسی مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر آپ ارد گرد کی الجھنوں میں الجھ گئے تو پھر ساری عمر انہی میں الجھے رہیں گے اور ملنا کچھ بھی نہیں۔