|

وقتِ اشاعت :   September 17 – 2019

1980ء؁ کی دہائی تک کا عرصہ ریڈیوپاکستان کا عہد زریں کہلاتا ہے، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ”پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی“ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پھر چراغوں کی لو مدھم پڑتی چلی گئی۔ بہرحال ریڈیوپاکستان کے مذکورہ عہد زریں میں صوتی دنیا کے افق پرمتعدد درخشاں ستارے نمودار ہوئے اور اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے، انہی میں ایک نمایاں ستارہ ثریاشہاب طویل علالت کے بعد 13ستمبر 2019؁ء کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون!
راقم نے 16نومبر1974؁ء کوجب ریڈیوپاکستان کے شعبہ خبر سے وابستگی اختیار کی تو ان دنوں انگریزی نیوز ریڈرز میں ریاض احمد خان، شائستہ زید(تب شائستہ زید)،ایڈورڈ کیرپیٹ اور جہاں آراء مجید (بعد میں جہاں آراء معین)جبکہ اردو نیوز ریڈرز میں وراثت مرزا، عبدالسلام، ثریاشہاب، ناہید ہ بشیر (بعد میں ناہیدہ انصاری)،خالد حمید، حمیداختر،ستارہ زیدی، ارجمند شاہین اور مہ پارہ صفدرکا طوطی بول رہاتھا۔ تاہم ان میں ثریاشہاب اپنی منفردآواز، جملوں کی ادائیگی، اردو زبان پر عبور وروانی نیزدرست تلفظ کی وجہ سے نمایاں تھیں۔راقم کا مذکورہ بالاتمام اصحاب کے ساتھ ساتھ ثریا سے بھی آتے جاتے کبھی کبھار سامنا ہوجاتا تھا لیکن کبھی علیک سلیک کی نوبت نہیں آئی تھی۔ا ن دنوں راقم انتہائی کم گو اور شرمیلا تھا اور کچھ والد صاحب کے پندونصائح تھے کہ بزرگوں اور خواتین کے سامنے نظر جھکائے رکھنا ہے(تاہم وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل چکا ہے اور اب ایسا نہیں ہے)۔ اس لئے آج ان کی شخصیت کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے تصور میں ان کی کوئی واضح شبیہ نہیں ابھر رہی البتہ ان کی شخصیت کا ایک خاکہ ضرور بن رہا ہے۔

ثریاکی آواز بڑی دلنشیں تھی اور اس میں ایک ردھم تھا جو سامعین کو مسحور کرلیتا تھا،کمپیوٹر ابھی آیا نہیں تھا اس لئے ان دنوں اردو خبریں ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں۔ کچھ مترجم خوش خط تھے جبکہ کچھ شکستہ خط، اور جب اچانک کوئی بریکنگ نیوز آجاتی تھی تو اچھے خاصے خوش خط مترجم بھی شکستہ خط ہوجاتے تھے، لیکن مجال ہے کہ خبریں پڑھنے کے دوران ثریا کو کوئی شکستہ خط خبر دی جائے اور اسے پڑھتے ہوئے ان کی زبان میں لڑکھڑاہٹ یا جھول آجائے۔سٹوڈیو جانے سے پہلے وہ خبرنامے کی باقاعدہ ریہرسل کیا کرتی تھیں اورزبان کی روانی یا لفظوں کی ادائیگی میں معمولی سابھی جھول محسوس ہوتو ایڈیٹر کے مشورے سے متبادل لفظ سمودیتی تھیں۔بعض نوآموز مترجمین کے مسودے کی نوک پلک بھی خود سنوار لیا کرتی تھیں۔

ثریا نے اپنی علالت تک ایک بھرپور زندگی گزاری،ریڈیوپاکستان اورپاکستان ٹیلی وژن سے وابستگی سے پہلے وہ ریڈیوزاہدان کے ایک پروگرام کے ذریعے صوتی محاذ پر اپنا رنگ جما چکی تھیں۔ ریڈیو زاہدان سے چلنے والاان کا یہ میگزین پروگرام بالخصوص نوجوانوں میں انتہائی مقبول تھا اور سامعین اس پروگرام کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ ثریا کی آواز میں ہوا کے دوش پر بکھرنے والے یہ الفاظ ”آواز کی دنیا کے دوستو یہ ریڈیو ایران زاہدان ہے“ ہزاروں کے دل موہ لیا کرتے تھے۔
ثریاشہاب ایک جہدمسلسل کا نام تھا،ان کی زندگی کا ایک پہلو ان کی فلاحی سرگرمیاں تھیں،جب انہوں نے ریڈیوپاکستان سے وابستگی اختیار کی نیوزریڈرز کو خبرنامے کے دورانئے کے مطابق معاوضے کی ادائیگی ہوتی تھی، لیکن ثریا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جہد مسلسل کے ذریعے اپنی اور ان کی نہ صرف ملازمت باقاعدہ بنوائی بلکہ ان کیلئے ان کی صلاحیتوں کے مطابق سکیلوں کی بھی منظوری کروائی۔

صدرجنرل ضیاء الحق کادورحکومت تھا اور قوم کو سادگی کی ترغیب دینے کیلئے 20نومبر1979؁ء کو انہوں نے راجہ بازار میں سائیکل پر سفر کیاتھا جس کا بڑاچرچا تھا اور بالخصوص دفاتر میں ان کی سائیکل سواری کامضحکہ اڑا یاجاتا تھا یادوسروں کا استحصال کیا جاتاتھا۔ اسی دوران کچھ مترجمین نے صدر کو اپنے مسائل کے بارے میں ایک خط لکھ دیا۔

صدر نے اس وقت کے سیکرٹری انفارمیشن لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن سے ان مسائل کا جائزہ لینے کو کہا۔ان دنوں ریڈیوپاکستان کا شعبہ خبر اے بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک بنگلے میں قایم تھا، جنرل مجیب نے وہاں کھلی کچہری لگائی اور حکم دیا کہ سوائے ڈائریکٹر آف نیوز کے تمام آفیسرز ہال سے باہر چلے جائیں صرف شکایت کنندگان اور دوسراسٹاف موجود رہے۔ اس کے بعد انہوں نے شکایت کنندگان کو براہ راست صدر کو خط لکھنے پر سرزنش کی اور باری باری مسائل سن کر ضروری احکامات جاری کردئیے جب ثریا کی باری آئی تو انہوں نے خواتین نیوزریڈر کے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے دفتر آنے اور جانے کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا مطالبہ کیا(انہی دنوں دفتر آتے ہوئے رکشہ والے نے ان سے بدتمیزی کی تھی) تو انہیں جواب میں کہا گیا کہ دفتر سائیکل پر آیا جایا کریں۔ یہ سنتے ہی جنرل مجیب کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور انہوں نے ثریا سے متعلقہ فرد کا نام بتانے کو کہا لیکن وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گئیں۔ تاہم جنرل مجیب نے خواتین سٹاف کو دفتر لانے اور واپس لے جانے کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

ثریا کے بعد نیوزلسنرساجدحسین کی باری آئی اورانہوں نے عیداور دوسری سرکاری تعطیلات پربلا معاوضہ ڈیوٹی کا مسئلہ اٹھایا، ڈائریکٹر نیوز نے جنرل مجیب کو بتایا کہ سرکاری تعطیلات پر ڈیوٹی انجام دینے والوں کوڈیوٹی کے بدلے میں ایک دن کی چھٹی دی جاتی ہے۔جنرل مجیب نے سوالیہ نظروں سے ساجد حسین کودیکھا تو انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی کے بدل چھٹی تو کوئی معاوضہ نہیں۔اس پر ثریا نے مداخلت کی کہ سر! عید والے دن تمام مسلمان اپنی فیملیزکے ساتھ یہ تہوار مناتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں آتے جاتے ہیں جبکہ ہم لوگ ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں، تو کیا ہمیں جو بعد میں چھٹی دی جاتی ہے وہ اپنی فیملی کے ساتھ عید منانے کا بدل ہوسکتی ہے؟ جنرل مجیب نے کچھ دیرسوچنے کے بعد حکم دیا کہ آئندہ عیدین پر ڈیوٹی انجام دینے والوں کو ان کی تنخواہ کا چارگنااوورٹائم دیا جائے گا۔

ثریا کی شخصیت کا ایک اور پہلو ان کی سماجی سرگرمیاں تھیں اور اس کیلئے انہوں نے راولپنڈی میں پاکستان یوتھ لیگ کے نام سے ایک تنظیم بنارکھی تھی جو متعدد پراجیکٹس پر کام کررہی تھی۔ اس تنظیم نے بہت سے کنوئیں کھدوائے اور متعدد سکول تعمیر کروائے۔

1980؁ء کے وسط میں ثریا شہاب بیرون ملک منتقل ہوگئیں اور بیس سال سے زائد عرصے تک بی بی سی اردو سروس اور ڈوئچے ویلے (وائس آف جرمنی) سے وابستہ رہیں اور اپنی آواز کا جادو جگاتی رہیں۔ راقم ان دنوں ریڈیوپاکستان کے شعبہ مانیٹرنگ سے وابستہ تھا اور اکثر ان کی آواز میں خبریں اور حالات حاضرہ کے پروگرام مانیٹر کیا کرتا تھا۔

ثریا نیوزریڈر ہونے کے علاوہ علمی و ادبی شخصیت بھی تھیں، وہ شاعری اور ناولوں سمیت پانچ کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ ان کی ایک کتاب کی رونمائی اسلام آباد ہوٹل(اب ہالیڈے ان) میں ہوئی۔ تقریب میں تقریباً پورا ریڈیو پاکستان امڈپڑا تھا۔ اپنی تقریر میں جب ثریا نے کتاب کی رونمائی اسلام آباد میں کرنے کی وجوہات بیان کیں اور کہا کہ میں نے دیارغیر میں بھی اپنے وطن کو عزیز رکھا اورمیری خواہش تھی کہ میں اپنی کتاب کی رونمائی بھی اپنے ہی وطن میں کروں، تو سامعین میں سے ایک آواز بلند ہوئی ”میڈم! آپ واپس آجائیں آ پ کوکچھ نہیں کہا جائے گا“ توجواب میں ثریا نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں یہ تو نہیں جانتی مجھے کچھ کہا جائے گا یا نہیں لیکن مجھے لوٹ کریہیں آنا ہے۔ “ اور پھر وہ 2000؁ٗ ؁ٗ؁ء میں واپس آگئیں لیکن یہ وہ ثریا شہاب نہیں تھیں۔ یہ جرمنی سے بریسٹ کینسر کے علاج کے بعد آئی تھیں اور ان پر بیماری کے اثرات نمایاں تھے۔اس بیماری کا ان کے دماغ پر بھی گہرا اثرہوا تھا۔

2013؁ء میں ثریا شہاب اپنی بیٹی کے ہمراہ نیشنل براڈکاسٹنگ ہاؤس اسلام آباد آئیں اور جنرل نیوز روم اور اردویونٹ جہاں سے انہوں نے خبریں پڑھنے کا آغاز کیا تھا، دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔وہ اپنی بیٹی کا سہارا لے کر چل رہی تھیں، ان کی حالت اتنی خراب تھی کہ بیٹی کے سہارے چلنے کے باوجود لینگویج ہال کی شیشے سے بنی پارٹیشن سے ٹکراگئیں۔بہرحال وہ اردو یونٹ میں گئیں تو انہیں کوئی شناسا نہ ملا،”اپنی اپنی بولیاں سب بول کر“اڑ چکے تھے۔

وہاں کوئی انہیں پہچانتا نہ تھا۔ راقم جوعلاقائی زبانوں کے خبرنامے دیکھ رہاتھا، اٹھ کر ان کے خیرمقدم کیلئے آگے بڑھا تو وہ شکستہ قدموں سے لوٹ رہی تھی۔ میری آواز سن کرخالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھا تو ان کی بیٹی نے بتایا کہ ان کی والدہ کسی کو نہیں پہچانتیں۔

ثریا شہاب لیجنڈ تھیں،انہوں نے طویل عرصے تک دنیائے نشریات پر بے تاج حکمرانی کی۔ان کے چاہنے والے اب بھی دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ریڈیوپاکستان، پاکستان ٹیلی وژن، بی بی سی اور وائس آ ف جرمنی سے نشر ہونے والی ان کی آواز اب تک کانوں میں رس گھولتی ہے۔

جب ثریا اس دنیا سے رخصت ہو گئیں،ملک بھر (بشمول صوبہ بلوچستان) سے شائع ہونے والے تقریباً سبھی قومی و علاقائی اخبارات نے ان کے انتقال کے خبر کوان کی تصویر کے ساتھ، اپنے صفحہ اول اور بعض نے صفحہ آخر کی زینت بنایا لیکن زمانے کی بے ثباتی دیکھیے کہ ریڈیوپاکستان کے کارپردازان جو اپنے ادارے کی ویب سائٹ کے ویورز کی تعداد تک کا حساب رکھتے ہیں اور پانچ لاکھ فالورز کا نام نہاد سنگ میل عبور کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس حوالے سے سرکاری ریڈیوکے ذریعے اپنی خود نمائی میں ذرہ بھر عار محسوس نہیں کرتے، ثریاشہاب جو ریڈیو پاکستان کی پہچان تھیں، کے انتقال سے بے خبر رہے اور ریڈیوپاکستان کے کسی بھی خبرنامے یا ویب سائٹ پر اس سلسلے میں کوئی خبر شامل نہیں کی۔

ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کی والدہ کی وفات کی خبر تو ریڈیوپاکستان کی ہیڈ لائنز کی زینت بن سکتی ہیں اور دوسرے صوبے کاوزیر اعلیٰ کی اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کی خبر یوم پاکستان کی تقریبات کی خبر سے پہلے تو نشر ہوسکتی ہے لیکن ریڈیوپاکستان کے درخشاں ستارے ثریا شہاب کے انتقال کی خبر ہیڈلائنز تو کجا عام خبر کے طور پر کسی خبرنامے یا فن کی دنیا کی خبروں میں شامل نہیں ہو سکتی (تاہم کنٹرولرنیوز طارق چوہدری جب اپنی ہفتہ وار تعطیل کے بعد اگلے روز ڈیوٹی پر آئے اور انہوں نے گزشتہ روز کے خبرناموں کا جائزہ لینے کے بعدثریا کے انتقال کی خبر اپنے خبرنامے میں ہیڈلائن نیوز کے طور پر شامل کی)۔

کہاں ہیں ریڈیوپاکستان کے آواز خزانے، کیاان میں شعبہ خبر کے لیجنڈز کی آوازیں بھی محفوظ ہیں، کہاں ہیں شعبہ خبر کے مدیران جو اپنے لیجنڈز سے بھی بے خبر ہیں؟ شائستہ زید پاکستان ٹیلی وژن سے ریٹائر ہوئیں توان کے آخری خبرنامے کے ساتھ ان کی خدمات پر پورا پروگرام نشرکیا گیا، کیا ریڈیو پاکستان کے لوگ تنگ نظر ہوچکے ہیں۔

ابھی شائستہ زید اور ارجمند شاہین جیسے بہت سے لیجنڈ زندہ ہیں، انہی کے انٹرویو ریکارڈ کرلیجیے۔اگر ان کی آوازیں آپ کے پاس نہیں ہیں تو پھرآواز خزانے کے دعوے کرنا چھوڑدیجیے۔ مرتضیٰ سولنگی سے تمام تر اختلافات کے باوجود راقم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ آج اگروہ ریڈیوپاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ہوتے اور ثریا شہاب کے انتقال کی خبر ہیڈلائنوں میں شامل نہ ہوتی توسینئر افسران سمیت پورے سٹاف کی شامت آچکی ہوتی۔