|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2019

کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ ایک ایسا بھی دور تھا جب بلوچستان سیاسی و ترقی پسند ادبی تحریکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جناح روڈ پر جگہ جگہ کتابوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں۔اب یہ دکانیں برانڈڈ جوتوں یا کھدر کلاتھ کے اعلیٰ مراکز میں تبدیل ہو چکی ہیں، مگر کبھی کبھی ان بچھڑے ہوئے ترقی پسند رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں تو پھر سے میرے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں۔

آج کا میرا موضوع سنگت اکیڈمی آف سائنسز کوئٹہ کا ماہانہ دیوان (نشست) ہے، جس میں گزشتہ دنوں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ سنگت اکیڈمی یا سنگت رسالہ کا نام آتا ہے تو نوجوانوں اور بزرگوں کی توجہ ڈاکٹر شاہ محمد مری اور ان کے کاروان کے سنگت، ساجد بزدار، بیرم غوری، ڈاکٹر عطا اللہ بزنجو، جیئند جمالدینی، جاوید اختر، ڈاکٹر منیر رئیسانی، عابد میر اور دیگر شریک کاروان کی طرف جاتی ہے۔مری صاحب کا شمار ترقی پسندی کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی چار کرسیوں والی (مری لیبارٹری) فاطمہ جناح روڈ پر واقع چھوٹے سے کمرے میں بھی باکمال اور دلچسپ لوگوں کی کھیپ پیدا کی ہے۔

اسی (مری لیب) میں بڑی نشستیں ہوتی ہیں اور ان سے عملی طور پر ادبی سرکلوں کو آباد کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مری خود ایک نفیس اور محبت و علم بانٹنے والے دلچسپ استاد کے ساتھ ساتھ اپنے میدان میں ایک مدبر رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی مجلسوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔

یکم ستمبر کو سنگت اکیڈمی کی ماہانہ تربیتی نشست کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ اگر یوں کہا جائے کہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز بلوچستان میں سرکل ان سماجی تحریکوں کا تسلسل ہے جس کی بنیاد 1920 میں ’ینگ بلوچ‘ کے نام سے میرعبدالعزیز کرد اور بعد میں ان کے شریک سفر یوسف عزیز مگسی اور بلوچستان سے باہر کے ترقی پسند رہنماؤں نے رکھی تھی تو غلط نہیں ہو گا۔

اس دیوان میں مکالمہ کرنے والوں نے سنگت اکیڈمی کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ موجودہ اکیڈمی بلوچستان میں ان ادبی تحریکوں کی جدید شکل ہے جس کی بنیاد رکھنے والے بیشمار انسان دوست روشن خیال اِس وقت ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے احسانات ہمیشہ ہم پر رہیں گے۔ان کا کہنا تھا ینگ بلوچ سے لے کر پراگریسیو رائٹر ایسوی ایشن (PWA) اور لوزچیذغ سے ہوتے ہوئے اس فکر کو آج کی نوجوان نسل تک منتقل کرنا بلوچستان کے تمام ترقی پسند ادب دوست، زبان دوست رہنماؤں کی مرہون منت ہے۔

سنگت اکیڈمی سے پہلے ماہنامہ سنگت رسالے کی اشاعت دسمبر 1997 سے باقاعدگی سے کی گئی۔ یہی سنگت رسالہ اور اس کے کاروان کے ساتھیوں نے کئی مسافتیں و منزلیں طے کرتے ہوئے آگے چل کر ضرورت محسوس کرنے پر سنگت اکیڈمی کی داغ بیل ڈالی۔اسی پلیٹ فارم سے ماہانہ علمی نشستوں کا سلسلہ پوہ و زانت (علم و دانش) شروع کیا گیا۔

اسی زمانے میں عبداللہ جان جمالدینی کی بیماری کے سبب ہر جمعہ دانش وروں کا جتھا ان کے ہاں جمع ہوتا جہاں بلوچستان کے علم و ادب اور سیاست و سماج کو زیربحث لایا جاتا۔ہر جمعہ کی نسبت سے اس کا نام (BJP) بلوچستان جمعہ پارٹی پڑ گیا۔ جب سرکاری سطح پر جمعہ کی چھٹی ختم کی گئی تو اس کا نام تبدیل کر کے (BSP) بلوچستان سنڈے پارٹی رکھ دیا گیا۔یہ اکٹھ 2016 میں عبداللہ جان کے گزر جانے کے بعد اب ماہانہ بنیادوں پر ہر ماہ کے پہلے سنڈے کو ہوتا ہے۔

سنگت اکیڈمی بیک وقت ایک سماجی ادارہ اور ایک مکمل ادبی انسٹیٹیوٹ ہے۔ بلوچستان سے باہر بھی ادیب، شعراء اور بائیں بازو کی سنگت اسے اپنا دوسرا متوقع گھر تصور کرتے ہیں۔ SAS کے زیر اہتمام ترقی پسند ادب کی 75 کتابیں مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہیں، جس میں اردو، بلوچی، پشتو شامل ہیں۔ان متعدد ملکی و بین الاقوامی مصنفین کی کتابوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں سنگت اکیڈمی کو ایک خطیر رقم عالمی پراگریسو ادب کے تراجم کے لیے دی، اس سلسلے میں سنگت اکیڈمی اب تک 40 کتابیں شائع کر چکی ہے۔

اس نشست میں پروفیسر ڈاکٹر منیر احمد رئیسانی نے کمرشلائیزڈ ادب پہ پیپر لکھا تھا اور خالد میر نے سائنس و ٹیکنالوجی: ڈیجیٹل دور اور کرنسی کا ارتقاء کے موضوع پر اپنا مکالمہ پیش کیا۔یہ ایک نیا اور دلچسپ موضوع تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کرنسی (پیسے) کا سفر بارٹر سیل (اشیاء کا باہم تبادلہ) سے شروع ہوا اور آگے بڑھتے ہوئے اشرفیوں، سونے چاندی کے سکوں کا رخ اختیار کیا اور اشیاء کے تبادلے کی بجائے اشرفیاں دے کر اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے لگے۔حضرت انسان نے ترقی کی کچھ اور منازل طے کر لیں۔ اب اس سے اشرفیوں کا بوجھ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا لہذا سکوں نے کرنسی نوٹ کے کاغذی پیسے کی صورت اختیار کر لی۔کاروبارِ زندگی چلتا رہا انسان ترقی کی مزید منازل طے کرتا رہا اور ایک وقت آیا جب زیادہ مقدار میں کرنسی نوٹ کی درآمد و برآمد بھی دشوار ہونے لگی تو اس نے معاملے کو مزید سہل بنانے کے لیے کرنسی نوٹ کو نمبروں اور پلاسٹک کارڈ (ATM) میں بدل دیا گیا۔ انھوں نے بتایا یہ سفر اب ڈیجیٹل کرنسی کی صورت جاری ہے۔

بہرکیف، مجموعی طور پر اس نشست کے بعد میرے ذہن میں ایک مایوسی سی پائی جاتی تھی وہ ہوا ہو گئی۔ آج میں بالکل پْرامید ہوں کہ اس دیوان اور (SAS) کی مسلسل جدوجہد کا ہر دوست سے تذکرہ کر رہا ہوں جو ہم ماضی کے حوالے سے بلوچستان ترقی پسند ادبی تحریکوں کے بارے میں کتابوں میں پڑھتے اور اپنے سینئیرز کی محفلوں میں سْنتے تھے، سنگت اسی کا عکس ہے۔ایسی محفلیں ہمیں یہ یقین دلاتی ہیں کہ آج بھی ایسے انسٹیٹیوٹ ہیں جو نوجوانوں میں کتاب کلچر کے فروغ اور ادب، تاریخ، فلسفہ پڑھنے کے لیے ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔

جن عظیم لوگوں نے اس نیک کام کی داغ بیل ڈالی یقیناً اس تسلسل سے ان کی روحیں پْرسکون ہوں گی اور اب جو اس عمل کے تسلسل کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اللہ تعالی ان کو بھی مزید توفیق و توانائی عطا کرے تاکہ یہ سلسلہ اسی طرح کامیابی کی منزلیں طے کرتے ہوئے آنے والی نسل تک منتقل ہو۔نوجوان نسل بھی اپنے بزرگوں سے امیدیں وابستہ رکھتی ہے۔ ہمیں امید ہے سنگت اکیڈمی، ان کے کاروان کے رفقا ء و سنگت اسی جذبے اور حوصلے کے ساتھ اسی سہل خرامی سے سہی مگر نہ تھکتے ہوئے اس فکری تسلسل کو برقرار رکھیں گے۔

ان ادبی و ترقی پسند تحریکوں کو ہم تک پہنچانے والے عبداللہ جان جمالدینی کے ہم سفر اور ہم نوا بہت ہیں مگر میں یہاں کامل القادری مرحوم کا ذکر اس لیے کرتا ہوں کہ ان کے ہم پہ بہت بڑے احسانات ہیں۔میرے لیے یہ نام اس لیے بھی اہم ہے کہ جب میں جامعہ کراچی میں شعبہ سیاسیات کا طالب علم تھا تو جناب پروفیسرڈاکٹر شمائیل قادری نے ایک دن کلاس میں اپنے والد کا ذکر بلوچستان کی فکری ادبی تحریکوں سے جوڑتے ہوئے بحث شروع کی تو میں واقعی اس وقت حیران رہ گیا کہ کتنے بڑے انسان دوست لوگ تھے کہ اپنی سرزمین سے نکل کر بلوچستان کے لیے اتنا کچھ کیا۔

یوں اسی دن سے میری شمائیل صاحب سے شناسائی ہوئی۔ بطور استاد جنھوں نے مجھے نصاب کے ساتھ ساتھ بہت کچھ پڑھایا اور میں نے ان سے اپنے وجود کے بارے میں بہت کچھ سیکھا، جو وہ خود اپنے عظیم والد سے سْنتے تھے۔کراچی یونیورسٹی میں دورانِ شاگردی میں ان کا بہت زیادہ احسان مند رہا۔ وہ قدم قدم پر میری رہنمائی کرتے تھے مگر اس وقت سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ کہ جناب کامل القادری صاحب مرحوم اسی کاروان کا حصہ رہے ہیں جو آج سنگت اکیڈمی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ ماضی میں انہی لوگوں کے کاروان کے ایک سرکردہ، جرات مند اور بہادر استاد سنگت ہوا کرتے تھے۔ اداروں کی یہ خوبی و اہمیت ہوتی ہے کہ اگر وہ اپنی انا، پسند ناپسند سے نکل کر کل وقتی طور پر زبان، ادب، کلچر اور ترقی پسند تحریکوں کی آبیاری کریں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں سنگت اکیڈمی، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، پشتو اکیڈمی، براہوئی ادبی اکیڈمی بھی کامیابی کے ساتھ زبردست انداز میں اپنے صوبے کے کلچر، زبان و تاریخ اور ادبیات کی بھرپور نمائندگی کر رہی ہیں۔ امید ہے ترقی پسند ادبی و علمی تحریک کا یہ تسلسل بلوچستان میں اسی طرح قائم رہے گا۔