|

وقتِ اشاعت :   September 22 – 2019

تربت : کیچ میں محکمہ تعلیم کے 114 اساتذہ ک برطرف کئے جانے کے بعد تعلیمی عمل، ماحول اور نظام پر برے اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے اکثر تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی محسوس کی جارہی ہے بعض ہیڈ ماسٹر اور مسٹریس نے ضلعی تعلیمی آفیسران سے مطالبہ کردیا ہے کہ وہ بر طرف اساتذہ کی خالی جگہوں پر نئے اساتذہ تعینات کریں یا نئے اساتذہ کے بھرتی کا عمل بروئے کار لائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ برطرف شدہ اساتذہ کی وجہ سے اکثر اسکولوں میں پیرئیڈ خالی جارہے ہیں جن سے طلباء اور طالبات کا سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے یاد رہے کہ اسی مہینے کیچ میں ضلعی تعلیمی آفیسر ان کی درخواست پر سیکریٹری ایجوکیشن نے بنا تحقیق و انکوائری 114 اساتذہ کو برطرف کردیا تھا جس کے بعد ضلع کیچ میں تعلیمی بحران نے جنم لیا ہے چونکہ ضلع کیچ میں پہلے سے اکثر اسکولوں میں اساتذہ اور ٹیچنگ کیڈر کی کمی رہی ہے۔

مکران اور خصوصی طور پر کیچ کسی زمانے میں تعلیمی میدان میں بہت پسماندہ رہا ہے لیکن بعد میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبداالمالک بلوچ نے اپنے سابقہ دور میں جب وہ بلوچستان میں تعلیم کے وزیر تھے۔

انہوں نے کافی اساتذہ کو بھرتی کرکے کیچ کے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی جس کے بعد کیچ میں تعلیمی انقلاب برپا ہوا تھا بلوچستان پبلک سروس کمیشن اور سی ایس ایس کے امتحانات میں پچھلے دو دہائیوں میں کیچ کے طلباء کی بڑی تعداد کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔

موجودہ تعلیمی آفیسران کی تعیناتی سے پہلے کیچ تعلیمی لحاظ سے پورے بلوچستان میں سرفہرست رہا ہے لیکن موجودہ ضلعی آفیسر ان نے سیکریٹری کو رپورٹ کرکے اطلاع دی تھی کہ ضلع بھر میں زیادہ تر اساتذہ غیر حاضر ہیں جو بحرین اور دبئی میں رہائش پزیر ہیں۔

جس سے سیکریٹری تعلیم نے تحقیق و انکوائری کئے بغیر یک جنبش قلم 114 اساتذہ کو برطرف کردیا تھا جس کے بعد کیچ میں تعلیمی عمل بحران کا شکار ہے جسکی وجہ سے سکولوں کے سربراہان اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں شش و پنچ میں مبتلا ہیں اور سوال کررہے ہیں کہ اگر کیچ میں اساتذہ فرض شناس نہ تھے تو ضلع کیچ تعلیم کے لحاظ سے صوبے کے دیگر اضلاع سے آگے کیسے نکل گیا اور اگر کیچ اس لئے تعلیمی لحاظ سے دیگر اضلاع سے آگے نکل گیا تھا کہ اُسکے اساتذہ ڈیوٹی سر انجام نہیں دے رہے تھے تو سکرٹری تعلیم کو ان اساتذہ کو برطرف کرنے کے بجائے صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی اسی عمل کو دھرانا چاہیے تھا تاکہ دوسرے اضلاع بھی تعلیمی میدان میں کیچ کی برابری پر آجاتے کیونکہ سکیرٹری ایجوکیشن کا کام لوگوں کو بیروز گار کرنا نہیں بلکہ تعلیمی نظام کو بہتر اور بار آور ثابت کرنا ہوتا ہے۔