|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2014

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پہلی بار یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں 50 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے رہتی ہے۔ یعنی دو سو روپے سے کم روزانہ ان کی آمدنی ہے۔ دوسرے الفاظ میں حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اور 10کروڑ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب حکمران، بشمول افسران شاہ خرچیوں سے باز نہیں آتے۔ سرکاری خزانہ اور قومی آمدنی انہی کے حوالے ہے جو مرضی آئے ، کرے، ملکی دولت کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں۔ ہر بڑا آدمی اربوں روپے کے اسکینڈل میں ملوث ہے مگر قانون ان کے خلاف حرکت میں نہیں آتی۔ اگر کبھی غلط فہمی سے قانون حرکت میں آ بھی جاتی ہے تو حکومت پر یہ فوری الزام لگ جاتا ہے کہ اس نے قومی مفاہمتی پالیسی ترک کردی اور اپوزیشن کے خلاف یک طرفہ کارروائی کررہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جتنی چاہے کرپشن کریں، آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ حکومت کا عالم یہ ہے کہ اس کے حکمران پہلے ذاتی معاشی اور تجارتی مفادات کو تحفظ دیتے ہیں۔ ہر دوسرا بڑا شخص بجلی، گیس اور ٹیکس کی چوری میں پکڑا جاتا ہے اس کا تعلق ’’تاجر لیگ‘‘ سے ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں پنجاب کے ارب پتی افراد کا تعلق تاجر لیگ سے ہے۔ مگر ان میں سے کوئی ارب پتی ملک میں سرمایہ کاری نہیں کررہا ہے۔ اگر سرمایہ کاری ہورہی ہے تو وہ مرکزی پنجاب میں جنوبی اور شمالی پنجاب کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ 60 سالوں میں یہ علاقے بلوچستان کی طرح پسماندہ اور غریب ہیں۔ حکومت کی زیر نگرانی غریبی کم کرنے کی کوئی اسکیم زیر تکمیل نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ حکومت کو غریبی ختم کرنے میں کتنی دل چسپی ہے۔ موٹر وے، میٹرو ٹرین اور میٹرو بس سے غریبی دور نہیں ہوگی۔ دور دراز علاقوں میں زبردست سرمایہ کاری سے غریبی میں کمی آئے گی۔ افسران ، حکمران، ساہو کار، پسماندہ علاقوں کا دورہ کرنا بھی پسند نہیں کرتے تو ان کو کیسے معلوم ہوگا کہ وہاں کے مقامی مسائل کیا ہیں اور ان کا معاشی حل کیا ہے؟ ویسے بھی حکومت نے طویل منصوبہ بندی کی پالیسی ترک کردی ہے۔ اب گزارا صرف سالانہ ترقیاتی پروگرام پر ہورہا ہے۔ اس کا عالم یہ ہے کہ ملک کے پسماندہ ترین صوبے کے لیے مختص رقم سے 50 فی صد سال کے آخر تک کاٹ دی جاتی ہے۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ بلوچستان کے لئے 40 ارب کا ہوتا ہے اور سال کے آخر تک اس غریب صوبے کی 50 فی صد رقم کاٹ لی جاتی ہے اور صرف 20 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس پنجاب کا صوبائی ترقیاتی پروگرام جو یقیناًوسطی پنجاب اور لاہور کے لئے مختص ہے وہ 500 ارب روپے کا ہوتا ہے اور اتنا ہی رقم وفاق خرچ کرتا ہے اور بیرونی ممالک سے امداد کی مد میں 200 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں ۔اس طرح وسطی پنجاب کے لئے 1200 ارب روپے صرف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتے ہیں ۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بلوچستان اور دوسرے کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہو اور پنجاب ترقی یافتہ بن جائے ۔۔۔ ایک ملک میں یہ نا ممکن ہے۔