اسلام آباد: مسلم لیگ نون کی حکومت نے کل بروز منگل اپنا دوسرا بجٹ پیش کیا، جس میں جہاں بہت سخت قسم کی کٹوتیاں بھی کی گئیں وہیں اس کے ساتھ ساتھ عوامی نوعیت کے اقدامات بھی کیے گئے۔
جس کے نتیجے میں امدادی رقوم میں کٹوتیاں کی گئیں اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کے کندھوں پر بوجھ ڈال دیا گیا۔اس کے ساتھ ہی نوجوانوں اور کاروباری طبقے کے لیے مراعات کا اعلان بھی کیا گیا۔
مسلم لیگ نون نے بنیادی ڈھانچے سے متعلق اپنے تمام منصوبوں کو بھی بجٹ میں شامل رکھا، جن پر اس کی جانب سے دستخط کردیے گئے ہیں۔
حکومت نے اندازہ لگایا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں اگلے مالی سال (2014-2015ء) کے دوران خرچ کرنے کے لیے 405 ارب روپے کی اضافی آمدنی حاصل ہوگی۔
230 ارب روپے کی رقم اضافی ٹیکس کے ذریعے، سبسڈیز میں کمی سے 120 ارب روپے کی بچت اور لگ بھگ 58 ارب روپے گیس کی قیمتوں میں اضافے سے حاصل ہوں گے۔
اپنی غیرمعمولی طور پر طویل بجٹ تقریر میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اگلے تین سالوں کے دوران ٹیکس کے ڈھانچے سے مرحلہ وار مراعات ختم کرنے کے بارے میں ایک گول مول سا اعلان بھی کیا، اس کو عام طور پر قانونی ریگولیٹری آرڈرز (ایس آراوز) کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی پانچ بڑے شعبوں، ٹیکسٹائل، لیدر، کارپٹس، سرجیکل اور کھیلوں سے متعلق سازوسامان اور ان کی ملک میں فروخت پر ٹیکس میں چھوٹ ختم ہوجائے گی۔
اس بجٹ میں صنعت، تجارت، کھاد اور پاور پلانٹس کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا، جس سے توقع ہے کہ اگلے سال کے دوران 145 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ اس سال اس کی شرح 88 ارب روپے تھی۔
حکومت کو امید ہے کہ اس مالی سال کے دوران 3.129 ٹریلین روپے ٹیکسوں سے حاصل ہوں گے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو اگلے سال کے لیے 2.810 ٹریلین روپے اکھٹا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، جبکہ 319 ارب روپے ایف بی آر کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل کیا جائے گا۔ٹیکسوں کے علاوہ حکومت کو دیگر ذرائع سے 816 ارب روپے حاصل ہوں گے۔
صوبوں کو 1.72 ٹریلین روپے منتقل کیے جانے کے بعد وفاقی حکومت کو موصول ہونے والے ریونیو کا تخمینہ وفاقی خسارے 1.711 ٹریلین روپے کو نکال کر 2.225 ٹریلین روپے تک لگایا گیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس خسارے کو 289 ارب روپے کی صوبائی امداد کے ذریعے 1.422 تک لایا جائے گا۔
تاہم ان اقدامات نے ماہرین معاشیات کو متاثر نہیں کیا۔
ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس کی وصولی کا ہدف بڑی حد تک غیر حقیقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے الفاظ یاد رکھیں، ایف بی آر ٹیکسوں کے ذریعے 2.810 ٹریلین روپے اکھٹا نہیں کرسکے گا۔ یہ وصولی 2.6 ٹریلین روپے اور 2.65 ٹریلین روپے کے درمیان ہی ختم ہوجائے گی۔
انہوں نے ٹیکس کی وصولی کے لیے کیے گئے مختلف حکومتی اقدامات کے بارے میں بھی شبہات کا اظہار کیا۔
اشفا ق حسن خان نے سوال کیا کہ ’حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس میں توسیع دی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکس جمع کرنے والی انتظامیہ کی صلاحیت ناکام ہوچکی ہے۔ وہ دیگر ذرائع سے ٹیکس جمع کررہے ہیں اس لیے کہ وہ ٹیکس جمع نہیں کرسکتے۔ آخر ایف بی آر کے لیے ڈھائی ہزار لوگوں کی کیا ضرورت ہے؟
امیروں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ؟ اس میں اہم تعلق اسٹاک انوسٹرز اور بروکرز حضرات کا ہے، حکومت نے سرمائے کے اضافے پر سے ٹیکس کی وصولی کو 10 فیصد سے بڑھا کر 17.5 فیصد کی وصولی کے فیصلے کو ملتوی کردیا ہے۔ جس کے بارے میں اس نے اپنے پچھلے بجٹ میں وعدہ کیا تھا کہ اس کانفاذ یکم جنوری 2014ء سے کیا جائے گا۔
تاہم بروکرز کے دباؤ میں آکر حکومت اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی اور سرمائے کے اضافے پر 12.5 فیصد ٹیکس کا نفاذ کردیا۔