|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2014

تمہارا کوئی دوست نہیں ہے جو کچھ کر سکے؟ اتنے سارے دوستوں نے تمہارے سی ایس ایس کیا تھا؟ جی ماں جی کیا تو کئی نے تھا لیکن بہت سوں سے تو اس کے بعد رابطہ نہیں رہا اور جن سے ہے بھی یہ کام ان کے بس سے بھی باہر ہے۔ پولیس میں نہیں ہے کوئی؟ ہاں ماں جی ہے پولیس میں بھی ایک آدھا لیکن ۔۔۔ لیکن کیا! اسے کہتے کیوں نہیں کہ پتا کرے۔ ماں جی آپ سمجھتی کیوں نہیں وہ پتا نہیں کر سکتا۔ وہ کیا کوئی بھی پتا نہیں کر سکتا۔ یہ جس کی کیا بلا ہوتی ہے ویب سائٹ پر لکھتے ہو اس کی تو ضرور کسی نا کسی سے واقفیت ہو گی اسے کہو اتنا سا کام بھی نہیں کر سکتا۔ ایک سال ہو گیا تمہیں لکھتے اتنا تو لحاظ کرے گا ہی۔ نہیں ماں جی میں نے کہا ہے نا کوئی نہیں کر سکتا یہ اخبار والا نا وہ اخبار والا کوئی نہیں۔ کسی کام کے نہیں تمہارے دوست نا تم!
یہ مکالمہ جس کے اختتام پر میری ماں مجھے نکما نالائق اور بیکار قرار دے کر کسی کام میں لگ جانے کی اداکاری کرنے لگتی ہے کئی دن سے لفظوں کی ترتیب میں تھوڑے بہت فرق اور ایک آدھ جملے کے آگے پیچھے ہونے کے علاوہ اسی طرح جاری ہے اور اکثر دن میں ایک سے زیادہ بار دہرایا جاتا ہے۔ صبح ناشتے کی میز پراخبار پڑھتے ہوئے عام طور پر اس کا آغاز ‘ہاں کوئی خبر آئی’ سے ہوتا ہے تو شام کو دفتر سے واپسی پر ‘آج ایک مہینہ سے اوپر ہوگیا ہے’ کہہ کر اسے شروع کیا جاتا ہے۔ ایک ہفتے میں میری ماں کو نیوز چینلز کے نمبر زبانی یاد ہو گئے ہیں۔ پانچ نمبر لگاؤ ہاں ڈان شاید اس پر ہی کچھ بتا دیں، جیو تو کمبختوں نے خدا جانے کہاں غائب کر دیا، یہ کہتے ہوئے میری ماں چینل پر چینل بدلے جاتی ہے اور پانچ منٹ کی ہیڈ لائنز ختم ہونے سے پہلے سارے چینل دیکھ ڈالتی ہے۔ دیکھتے رہنا شاید آگے کی خبروں میں ہو میں ذرا نماز پڑھ لوں کا حکم سنا کر ماں اٹھ جاتی ہے لیکن نماز میں بھی میری اس ماں کے کان ٹی وی کی طرف لگے رہتے ہیں جسے تسبیح کے دانے گراتے اپنے اردگرد ہونے والی کسی چیز کی کبھی خبر نہیں ہوئی۔ مجھے سپورٹس کا کوئی چینل لگائے دو منٹ نہیں گزرتے کہ وہ آ پہنچتی ہے، تمہیں دن بھر اس ہلڑ بازی کو دیکھنے کے علاوہ کوئی کام بھی ہے میرا چینل لگاؤ۔ اب سے ہفتہ بھر پہلے تک جب وہ میرا چینل لگاؤ کہا کرتی تھی تو اس کا مطلب کچھ اور تھا لیکن اب اس میرے چینل سے ماں کا مطلب کوئی بھی نیوز چینل ہے۔ ہونٹوں میں خدا جانے کیا بدبداتی ایک ہاتھ سے تسبیح پھیرتی اور دوسرے ہاتھ سے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباتی میری ماں کو ایک خبر کی تلاش ہے لیکن وہ خبر کسی چینل پر ہے نا کسی اخبار میں۔ ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ یونہی چینل پر چینل بدلتے ایک سیاست دان نظر آ گیا تو میری ماں نے جیسے بے قرار ہو کر کہا یہ وہی ہے نا جس کے ساتھ تم سڑکوں پر ایک شہر سے دوسرے شہر “ریاست ہو گی ماں کے جیسی” گاتے پھرتے تھے، اس کا نمبر تو تمہارے پاس ضرور ہو گا، لاؤ مجھے دو میں اس سے بات کرتی ہوں۔ میں نے شرمندگی سے بچنے کو چینل بدل دیا تو اس پر ایک صاحب بیٹھے پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ رکو رکو یہ ضرور اسی کے بارے میں بتا رہا ہوگا یہ تو باقیوں جیسا نہیں ہے۔ لیکن کچھ دیر تک ان صاحب نے جب دھاندلی دھاندلی کی گردان کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا تو ماں نے مایوس ہو کر ریموٹ مجھے تھما دیا اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ میں نے کھانا نکال دیا ہے کھا لینا میں نماز پوری کر لوں ویسے بھی مجھے بھوک نہیں ہے۔ ماں کی پلیٹ میں روٹیاں کم ہوتی جا رہی ہے اور نماز میں رکعتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
ابھی ہفتہ پہلے تک سب ٹھیک تھا، ماں اپنے کاموں میں مگن تھی اور میں اس کے پاس ہی فیس بک کھول کر بیٹھا دوستوں کی پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ ایک تصویر سامنے آگئی۔ خدا جانے مجھے اس میں کس نے ٹیگ کر دیا تھا۔ ایک نحیف سا لڑکا سرخ دری ف لیٹا مسکرا رہا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ لڑکیاں چہرہ ڈھانپے بیٹھی نظر آ رہی تھیں۔ ایک اور احتجاج کہہ کر میں آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ میری ماں کی نظر اس تصویر پر پڑ گئی۔ یہ کس کی تصویر ہے؟ یہ یہاں کیوں لیٹا ہے؟ کیا یہ تمہارا کوئی دوست ہے؟ اسے کیا ہوا ہے؟ اتنا کمزور کیوں لگ رہا ہے؟ یہ لڑکیاں کوں ہیں؟ سڑک پر کیوں بیٹھی ہیں؟ ان اور ان جیسے سینکڑوں سوالوں کے آدھے ادھورے جواب دے کر میں نے جیسے تیسے جان تو چھڑا لی لیکن اس دن کے بعد سے میری ماں کچھ عجیب سی ہو گئی ہے۔ رات کو آنکھ کھل جائے تو جانماز پر بیٹھی ملتی ہے، دن بھر خدا جانے کیا سوچتی رہتی ہے۔ خیر یہ بھی اچھا ہے، کیوں کہ ماں اگر سوچ نا رہی ہو تو سوال پوچھتی رہتی ہے اور میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں. پہلے تو ٹال جاتا تھا اب تنگ آ کر گھر سے باہر نکل جاتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ لطیف جوہر کی ماں بھی اس سے ایسے ہی سوال پوچھتی ہو۔ تمہارا کوئی دوست نہیں جو پتا کر سکے کہ زاہد بلوچ کہاں ہے؟ اس کی ماں مجھ سے روز پوچھتی ہے۔ کب تک آئے گا؟ کسی کو تو پتا ہو گا؟ کسی اخبار والے سے کہہ کر دیکھا؟ ایسا ہی ہوا ہو گا جبھی تو لطیف نے اپنے گھر سے باہر رہنا شروع کر دیا ہے۔ شاید زاہد اور لطیف کی ماؤں کی بھی نمازیں لمبی اور بھوک کم ہو گئی ہو۔ مائیں سب ایک سی ہوتی ہیں اور ان کے سوال بھی۔ آپ میں سے کسی کے پاس اپنی، لطیف کی، میری زاہد کی، ہم سب کی ماؤں کے سوالوں کے جواب ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ اب تک گھر میں کیسے بیٹھے ہیں باہر کیوں نہیں آتے؟ Courtesy:  Dawn Urdu.Com