ویسے تو بلوچستان کی معیشت کا دارومدار صرف اور صرف اسمگلنگ پر ہے۔ صنعتی اشیاء اسمگل ہوکر بلوچستان آتی ہیں۔ اس پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور نہ ہی اسمگلرز اور دکاندار ریاست کو کسی قسم کا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس لئے ریاست کی آمدنی بلوچستان میں منجمد ہوکر رہ گئی ہے ۔گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی محاصل میں اضافہ نہیں ہوا سوائے معدنیات کے شعبہ کے ، سیندھک کے سونے کے کان سے اربوں روپے کا ٹیکس ریاست کو ملتا ہے۔ باقی کوئی اہم شعبہ نہیں ہے جہاں سے حکومت کو قابل ذکر آمدنی حاصل ہو۔ روایاتی طور پر بلوچستان میں ماہی گیری، زراعت، گلہ بانی، معدنیات بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ یہی صوبائی معیشت کے چار ستون بجٹ کے دوران نظر انداز کئے جاتے ہیں اور توجہ ان اسکیموں پر دی جاتی ہے جہاں سے افسران اور سیاسی رہنماؤں کو زیادہ سے زیادہ کمیشن مل سکتا ہے۔ اس کی مثال گوادر کے قریب کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ ہیں جو بی ڈی اے اور محکمہ صنعت کی طرف سے لگائے گئے۔ اس میں اربوں روپے کا کمیشن وصول کیا گیا ۔ اس کے لیے گوادر کے قریب کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ لگائے گئے۔ نیب ان معاملات میں اندھا ثابت ہوا کیونکہ ان میں سرکاری اہلکاروں کے چہیتے ملوث ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اس رقم کا چوتھا حصہ خرچ کرنے سے ان دریاؤں پر ڈیم بنائے جاسکتے تھے جو نہ صرف گوادر بلکہ اس کے گرد و نواح کو صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بناتے۔ اس لئے بجٹ بناتے وقت ان چار اہم شعبوں کا خاص خیال رکھا جائے جہاں سے 90فیصد لوگوں کوروزگار ملتا ہے۔ گلہ بانی کو ترقی دے کر ہم دودھ، مکھن کی پیداوار میں نہ صرف اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ ان کو برآمد بھی کرسکتے ہیں اس سے سعودی عرب اور دیگر ممالک میں قربانی کے جانوروں کی خوراک کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ ماہی گیری کا شعبہ ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات پوری کرنے کے بعد چھ ارب ڈالر کی مچھلی دنیا بھر میں برآمد کرسکتاہے۔ زراعت کے شعبے میں ہمارے پاس دو کروڑ زمین اضافی پڑی ہے، اس کو قابل کاشت بناکر بلوچستان غذائی پیداوار میں نہ صرف خود کفیل بلکہ پورے خطے کی غذائی اجناس کی ضروریات پوری کرسکتاہے۔ معدنیات تو کئی کھرب ڈالر کا پروجیکٹ ہے جس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ ایک ٹھگ کو کئی دہائیوں تک معدنیات کے شعبہ کے سیاہ و سفید کا مالک بنادیا گیا۔ اس کے خلاف 19کرپشن کے مقدمات قائم ہوئے اور وہ رشوت دے کر ان تمام مقدمات سے بری ہوگیا۔ وہ بلوچستان انتظامیہ میں ’’جادوگر‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان چار شعبوں پر زیادہ توجہ دی جائے بشمول انسانی وسائل کی ترقی کے۔