کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ این اے265پرالیکشن ٹریبونل کے فیصلے سے الیکشن کے نتائج پرہمارے تحفظات اورالزامات درست ثابت ہوئے اس سے انصاف کا بول بالا ہوا ہے،تحریک انصاف کو چاہیے فیصلے کو من وعن تسلیم کرتے ہوئے دوبارہ انتخاب لڑے اگر فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیاتو ہم وہاں بھی انصاف کادروازہ کھٹکھٹائیں گے۔
غیر جمہوری طریقے سے منتخب ہونیوالے کواہم عہدے پر بیٹھا کر مراعات دینے اورعوام کے جمہوری حق کو روندنے کا حساب کون دیگا۔ الیکشن کمیشن حلقے میں جلد انتخابات کے انعقاد کااعلان کرے عوام جسے چاہیں منتخب کریں ہمیں اعتراض نہیں ہمارا پی ٹی آئی سے انتخابات سے قبل کوئی اتحاد نہیں تھا حکومت کا چھ نکات کے حوالے سے ساتھ دیا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز سراوان ہاؤس کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی، پارٹی رہنماء واراکین اسمبلی ملک نصیراحمد شاہوانی،موسیٰ بلوچ، احمد نواز بلوچ، میر اکبر مینگل، میر ہمایوں عزیز کرد، غلام بنی مری،ساجد ترین ایڈوکیٹ بھی انکے ہمراہ تھے۔
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ 25جولائی 2018کے عام انتخابات کے بعد بی این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ہم نے مختلف حلقوں میں ہونے والی دھاندلی کے شواہد اور تنائج کو میڈیا کے سامنے پیش کیا اور کیسز داخل کئے گئے این اے 265پر جو نتائج 25جولائی کو دئیے گئے تھے۔
ہمارے امیدوار حاجی لشکر ی رئیسانی نے وکلاء اور پارٹی دوستوں کی جدوجہد سے یہ بات ثابت کردیا کہ جو دعوے ہم نے 26جولائی کو کئے تھے وہ درست ثابت ہوئے، انہوں نے کہا کہ حلقہ این اے 265میں 1لاکھ 14ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے 52ہزار ووٹ غیر تصدیق شدہ ثابت ہوئے، الیکشن ٹربیونل نے این اے 265میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا۔
یہ تمام سیاسی جمہوری قوتوں کی جیت ہے اس سے یہ بات اخذکی جاتی ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج نے انصاف پر مبنی فیصلہ سنایا جس سے انصاف کا بول بالا ہوا اور جو لوگ جمہوری اداروں سے آ س لگائے بیٹھے ہیں انہیں بھی امید کی نئی کرن ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جاتا ہے تو توقع ہے کہ سپریم کورٹ بھی بلوچستان میں ہونے والی سیاسی،معاشی،سماجی ناانصافیوں کے انبار کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ کریگی۔
سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ 2013کے الیکشن کے نتائج آنے کے بعد موجودہ وزیراعظم نے نتائج کے خلاف احتجا ج کیا،انصاف کے دروازے کھٹکٹائے، دھرنے دئیے مارچ کئے ہم ان سے بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے جمہوری تقاضوں کے مطابق دوبارہ انتخاب کی تیار ی کریں گے اخلاقی طور پر پی ٹی آئی اور انکے امیدوار فیصلہ تسلیم کرکے عوام پر فیصلہ چھوڑیں کہ وہ کس کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2018کے انتخابات میں عوام نے دھوپ میں کھڑے ہوکر ووٹ ڈالے جن میں سے 50فیصد بوگس نکلے اس حوالے سے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے کہ غیر جمہوری طریقے سے جسے منتخب کیا گیا اور اہم عہدے پر بیٹھا کر مراعات دی گئیں اس دوران عوام کا پیسہ خرچ ہوا اسکا حساب کون دے گا۔
عوام کے جمہوری حق کو روندا گیا اسکا حساب کون دیگا، چاہے کوئی شخص، طاقت ور، آر او،عملہ یا خلائی مخلوق اس عمل میں ملوث تھی ان سب سے اس حوالے سے پوچھا جائے، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارا پی ٹی آئی سے انتخابات سے قبل کوئی اتحاد نہیں تھا ہم نے حکومت کا چھ نکات پر عمل کے حوالے سے ساتھ دیا۔
اس فیصلے سے چھ نکات پر عملدرآمد یا آنے والے الیکشن پر اثر انداز نہیں ہونے چائیں، انہوں نے کہا کہ بی این پی نے حکومت کو وٹ دیا اور انہوں نے ہمارے چھ نکات تسلیم کئے،اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مڈٹرم الیکشن کروانا ہمارے ہاتھ میں نہیں جب بھی مڈٹرم الیکشن ہوئے پہلے حالات بنانے پڑیں گے پھر الیکشن ہونگے حکومت اور اسمبلیوں کو ایک سال ہوا ہے اپوزیشن کے ہمیشہ کی طرح کچھ تحفظات ہیں وہ اپنے مطالبات کو عوام میں لیکر جارہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام انہیں کیا درعمل دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ این اے 265کا نتیجہ اس بات کی بھی عکاسی کر تا ہے کہ جب کوئٹہ شہر میں یہ سب ہوسکتا ہے تو اندورن بلوچستان اور ملک کے مختلف علاقوں میں بھی کیا ہوسکتا ہے اس سے اپوزیشن کے موقف کو بھی تقویت ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم چلتی گاڑی کے مسافر نہیں ہمارے سیاسی مسائل ہیں یہی جماعتیں جو اپوزیشن میں ہیں کل حکومت میں تھیں انہوں نے ہماری بات سننا تک گوارا نہیں کیا اگر اپوزیشن صوبے کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائے تو بات ہو سکتی ہے موجودہ حکومت نے اگر مسئلے حل نہیں کئے کم از کم بات تو سنی اور بلوچستان کے مسائل کو تسلیم کیا گزشتہ حکمرانوں نے چھ نکات کو تسلیم تک نہیں کیا کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرکل تبدیلی آئے اور اپوزیشن اقتدار میں آئے تو پھر ایسا تو نہیں کہ بلوچستان کو قربانی کا بکر ابنا کر بلوچستان کے لوگوں کی قربانی چڑھائی جائیگی۔
ایک سوال کے جواب میں سرداراخترمینگل نے کہا کہ حکومت سے ہمارا معاہدہ ایک سال کا ہوا تھا حکومت کو سال مکمل ہونے سے قبل یاد دہانی کروائی اس کے بعد کچھ مسائل حل کر نے کے اقدامات ہوئے صوبے میں 400لوگ بازیاب ہوئے، پی ایس ڈی پی میں منصوبے شامل کئے گئے۔
لیکن 70سال کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے یہ کافی نہیں ہے یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جسکا اعتراف کرتے ہیں لیکن بلوچستان کی 70سالہ محرومی کے خاتمے کے لئے انقلابی فیصلے اور بڑی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جس سے مسائل حل ہونگے،ہم کم از کم پچاس فیصد مسائل حل کر نے کے خواہش مند ہیں یہ بات پی ٹی آئی کی قیادت کے سامنے رکھیں گے ہم چاہیں گے کہ مسائل ایک دن میں حل ہوں اگر حل نہیں ہوسکتے لوگو ں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے وہ بند ہونا چاہیے۔
اگر حکومت یقین دہانی اور عمل درآمد کرا دے کہ یہ سلسلہ رک جائیگا تو ہم حکومت کو مزید ٹائم دیں گے،انہوں نے کہا کہ ہم شاید انتظار کرسکیں لیکن بلوچستان کے لوگ مزید انتظار نہ کر سکیں گے،انہوں نے کہ عمران خان نے کالعدم تنظیموں کو ٹرینڈکرنے کے حوالے سے جو بات کی ہے اگر یہ بات میں یا کوئی اور کہتا تو شاید مسنگ پرسنز میں ہوتا جو حقائق خان صاحب نے بیان کئے وہ ملک کا سربراہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر تسلیم کر رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم حسب روایت یہ عمل دہرائیں گے یا اسکو یہیں ختم کر دیں گے۔