|

وقتِ اشاعت :   October 1 – 2019

دریائے سندھ کے دہانے کی شمالی حد پر ایک قدرتی بندرگاہ کے گردشہرکراچی جو جنوبی پاکستان میں بحیرہ عرب کے عین شمال میں واقع ہے پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو رقبے کے حساب سے 3.527مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔دنیا کے بڑے شہروں میں کراچی کا شمار چھٹے نمبر پر ہے جو 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت بھی رہا۔اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ گزشتہ 150 سالوں میں کراچی کی آبادی و دیگر اعداد و شمار میں واضح تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

غیر سرکاری اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947ء کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند (1947) کے نتیجے میں دس لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی میں آ بسے۔شہر کی آبادی اس وقت 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں اہم ترین کردار دیہات سے شہروں میں منتقلی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ 45 ہزار افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔ کراچی ایک ناہموار میدانی علاقہ ہے جس کی شمالی اور مغربی سرحدیں پہاڑیاں ہیں ساحل سمندر پر واقع ہونے کی وجہ سے شہر کا موسم بہت معتدل ہے شہر میں بارشیں کم ہوتی ہیں، سال میں اوسطاً 250 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جس کا زیادہ تر حصہ مون سون میں ہوتا ہے۔

کراچی کو لاحق خطرات:

ساحلی پٹی پر واقع ہونے کی وجہ سے کراچی کو کئی خطرات لاحق ہیں جن میں بجلی کی بغیر منصوبہ بندی کے ترسیل، سونامی، زلزلہ، برساتی نالوں پر چائنا کٹنگ کے بعد ہونے والی تعمیرات، بغیر منصوبہ بندی کے وجود میں آنے والے رہائشی منصوبے، برساتی پانی کی قدرتی گزرگاہوں پر رہائشی منصوبوں کا وجود میں آنا، نشیبی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر کا بحران شامل ہے۔

کراچی میں بجلی کا نظام:

کراچی میں بجلی کی ترسیل کی تاریخ سو سال سے پرانی ہے1913ء میں قائم ہونے والی کے الیکٹرک کو 1952ء میں قومی تحویل میں لیا گیا تھا‘ جس کے بعد اس کا نام بدل کر کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس ای) رکھ دیا گیا تھا۔ 2009ء میں ایک بار پھر اسے دوبئی کی ابراج کیپیٹل کے ”حوالے“ کر دیا گیا‘ اور اس کا پرانا نام بھی بحال کر دیا گیا۔ کے الیکٹرک نے معاہدے کے وقت یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پورا سسٹم اپ گریڈ کرے گی اور بجلی کی پیداوار میں اضافہ بھی اس کی ذمہ داری میں شامل ہو گا، لیکن کام اس کے برعکس ہوا۔نجکاری کے بعد اس کا نام کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی لمیٹڈ کردیا گیا۔ تب بھی یہ کے ای ایس سی ہی کہلاتی رہی۔ تاہم 13 ستمبر 2013 کو اس کا نام تبدیل کرکے کے الیکٹرک کردیا گیا۔

لیکن آج مجھے یہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کے دیگربڑے شہروں کی بنسبت ہم آج بھی 1913عیسوی میں جی رہے ہیں۔ کے الیکٹرک کا آپریشن 6500 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، جس میں کراچی، دھابیجی اور گھارو کے علاوہ بلوچستان کے علاقے اوتھل، وندر اور بیلہ بھی شامل ہیں۔ کے الیکٹرک جس کا نعرہ تھا ‘انرجی دیٹ مووز لائف’ اب ‘انرجی دیٹ ٹیکس لائف ‘میں بدل چکا ہے کراچی کے لوگ بجلی کی سہولت کے حصول کے عیوض جہاں ماہانہ بھاری بل ادا کرتے ہیں وہاں انہیں اپنی جانیں بھی قربان کرناپڑتی ہیں۔30 جون 1977 کو6 گھنٹوں کی مسلسل موسلا دھار بارش میں تقریباً 207 ملی میٹر یا 18 انچ بارش ہوئی جس کے نتیجے میں کھمبوں اور ننگے تاروں کے کرنٹ نے سرکاری اعداد شمار کے مطابق 248،مگر حقیقتاً 1000 سے زائد افراد کی جان لے لی۔

اگر ماضی قریب میں جھانکیں تو جون 2015 میں کراچی میں شدید گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) کی وجہ سے کراچی میں 12 سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جس کا اہم سبب کے الیکٹرک کی طرف سے بجلی کی بندش تھا۔ جنوری 2017 میں بارش کے دوران کرنٹ لگنے سے 5 افراد کی موت واقع ہوئی جبکہ، اگست2017میں کراچی میں وقفے وقفے سے تیز بارش کا سلسلہ جاری ہے جبکہ چھتیں گرنے اور کرنٹ لگنے سے 10 افراد جاں بحق ہوئے۔ 1993 کی طوفانی بارشوں میں ہونے والی تباہ کاری اور اموات کو کراچی کے لوگ ابھی تک نہیں بھول سکے ہیں۔

لیکن اس کے باوجود گزشتہ دنوں بارشوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں پر معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں آیا تو درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ حالیہ بارشوں میں 30 سے زائد اموات ہوئیں، اس سے پہلے شہر میں کبھی اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ان ہلاکتوں کا تعلق مون سون کی بارشوں کے دوسرے اسپیل سے تھا جبکہ اس سے قبل پہلے اسپیل میں جو دو اگست2019ء تک جاری رہا اس میں بجلی کے ننگے تاروں اور کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے سبب کم سے کم 18 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تربچے شامل تھے۔

پانچویں اسپیل ستمبر کے آخری ہفتے میں تین روز تک وقفے وقفے سے ہونے والی بارش سے بھی 9 سے زائد اموات ہوئیں لیکن کہیں سے بھی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔اعداد و شمار کے مطابق ہر سال بجلی سپلائی کے ناکارہ انفراسٹرکچر کے ہاتھوں کم از کم دو سو لوگ کراچی میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کچھ واقعات منظر عام پر آتے ہیں اور کچھ نہیں آتے۔کون ہے جس نے سوشل میڈیا پر ڈیفنس کے تین نوجوانوں طلحہ تنویر، حمزہ طارق اور فیضان کی موت کے مناظر نہیں دیکھے اس واقعہ سے متعلق ایک عینی گواہ کا کہنا ہے کہ ”وہ ایک انتہائی المناک اور خوفناک حادثہ تھا۔ نوجوان جب موٹر سائیکل پر ڈیفنس میں ایک کھمبے کے پاس سے گزرے تو کرنٹ لگنے سے گر گئے۔

ایک تو پانی میں ڈوب گیا اور موقعے پر ہی ہلاک ہو گیا جبکہ باقی دو نوجوان زندگی بچانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ میں نے اپنے ملازمین سے کہا کہ جاؤ جو کچھ کر سکتے ہو، کرو۔ مگر میں یہ منظر دیکھ کر صدمے سے خود بیہوش ہوگئی تھی۔ جب ہوش آیا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ تینوں نوجوان اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ منظر مجھے بالکل ڈراؤنے خواب کی طرح لگتا ہے۔ میں اس کو نہ تو یاد کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی بات کرنا چاہتی ہوں ”۔ ایک اور عینی گواہ کے بیان نے کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت کا پردہ کچھ اس طرح چاک کیا”وہ خود اور وہاں موجود افراد فون پر کراچی الیکڑک کمپنی کو بار بار بجلی بند کرنے کی درخواستیں کرتے رہے اور بجلی 20 منٹ بعد بند ہوئی جس کے بعد نوجوانوں کو پولیس موبائل اور امدادی کارکنان نے موقع پر پہنچ کر نکالا۔

ان پر مٹی ڈالی گئی کہ شاید کرنٹ کے اثرات ختم ہوسکیں مگر تھوڑی ہی دیر میں ایک اور نوجوان چل بسا جبکہ تیسرا نوجوان ایدھی سروس کی ایمبولنس میں دم توڑ گیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو حالیہ بارشوں کے دوران کے الیکٹرک کے بوسیدہ نظام سے انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت بھی سامنے آگئی۔تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اضافی منافع کی خاطر 300 میگاواٹ کے 2 جنریشن یونٹس بند کرکے بحران بڑھایا گیا۔ بجلی کمپنی نے غیر ملکی چیف جنریشن سنکلر کے احکامات پر خراب موسم کے بہانے پر بدترین لوڈشیڈنگ کرکے نہ صرف شہریوں کو اذیت میں مبتلا کیا۔

بلکہ لاکھوں روپے بھی بچائے۔برسات ہوتے ہی کے الیکٹرک کے غیر ملکی چیف جنریشن و ٹرانسمیشن افسر ڈیل سنکلر نے بذریعہ ایل میل ڈی سی ڈپارٹمنٹ کو احکامات جاری کئے کہ بن قاسم یونٹ ون کے 150 میگاواٹ کے 2 یونٹ بند کردیئے جائیں تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال میں لایا جاسکے۔دونوں یونٹس آپریشنل تھے ان میں کوئی خرابی نہیں تھی تاہم انہیں محض پیسے بچانے کے لئے اسٹینڈ بائی پر ڈالا گیا اور مسلسل 3 روز تک شہریوں کو اذیت میں مبتلا رکھنے کے بعد بھی 300 میگاواٹ کے یونٹس چلانے سے گریز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے جنریشن مزید کم ہوگئی ہے‘ نتیجتاً شارٹ فال کی وجہ سے نولوڈشیڈ زونز میں بھی گھنٹوں لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔

کراچی میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا سندھ ہائی کورٹ نے نوٹس لیا اعلیٰ پولیس حکام کو رپوٹس بھی پیش کی گئیں کمشنر کراچی نے بھی کے الیکٹرک کے خلاف تحقیقات کے حکم صادر فرمائے نیپرا نے بھی کارروائی کا بیان جاری کیا اور کرنٹ سے ہونے والی اموات کے بعد کراچی کے علاقوں درخشاں، پاپوش نگر، تیموریہ، شارع نور جہاں، اجمیر نگری، گلبہار، سائٹ، سپر ہائی وے اور بغدادی میں مقدمات درج ہوئے۔ ملیر سٹی میں درج مقدمات کی تعداد 2 ہے، جبکہ کرنٹ لگنے سے مجموعی طور پر درج مقدمات کی تعداد 10 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کے الیکٹر ک انتظامیہ کے خلاف داخل ہونے والی ایف آئی آرز میں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات بھی شامل کی جاتیں اور اس وقت تک کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہزاروں اموات پر ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دے کر اس کی تحقیقات کی جاتیں اور قانون اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے ملزمان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیتا لیکن ایسا نہ ہوا اور نہ شاید ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کے پیچھے بہت بڑا مافیا سرگرم ہے جس تک قانون کے ہاتھ نہیں پہنچتے۔

کراچی کے ندی نالے:

کراچی میں مون سون سیزن کے دوران کراچی کے لوگوں کے لئے جو سب سے بڑا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے وہ ہے کراچی میں پھیلے برساتی نالے۔ماضی کی طرح رواں سال بھی شہر بھر میں پھیلے چھوٹے بڑے 550برساتی نالے جو کچرے کے ڈھیر سیبھرے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے بارش کے دوران شہر کی اہم شاہراہیں اور بیشتر علاقے ڈوب گئے۔ قانون کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے یہ نالے کراچی والوں کی زندگی کے لئے بہت بڑا رسک بنے ہوئے ہیں متعلقہ اداروں کے غیر فعال یا رشوت کے بھاری لین دین کی وجہ سے ان نالوں پر ہونے والی تجاوزات چائنا کٹنگ اور غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ متعلقہ ادارے شہر بھر کاکچرہ بھی ان ندی نالوں ایں پھینکتے ہیں اور قانون سو رہا ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں دیکھنے میں یہ بھی آیا کہ ملیر ندی کی قیمتی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی الاٹ کر دی گئی جس کا کیس نیب میں زیر تفتیش ہے اسی طرح سعدی ٹاؤن، امروہا سوسائٹی سمیت سفورہ گوٹھ کے علاقے میں قائم ہونے والے رہائشی منصوبے اور ناردرن بائی پاس کھیر تھر پہاڑوں اور لٹ ڈیم کے پانی کے اوور فلو کے پانی کی قدرتی گزر گاہوں کے بیچ میں بنائے گئے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ سپر ہائی وے پر قائم ہونے والے بڑے رہائشی منصوبے بھی پہاڑی سلسلوں سے بارش کے دوران آنے والے پانی کی قدرتی گزر گاہوں کو تباہ کر کے بنائے جا رہے ہیں جس سے آنے والے وقت میں بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

زلزلہ اور سونامی:

کراچی سمیت سندھ کے بعض ساحلی علاقے خطرناک فالٹ لائن زون کی پٹی پرواقع ہیں جس کی وجہ سے ہر وقت بہت بڑے انسانی المیے کا خطرہ کراچی والوں کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ شہر میں بغیر منصوبہ بندی کے تعمیر ہونے والی گنجان عمارتیں، سوئی گیس اور بجلی کی ایک ساتھ گزرنے والی لائنوں نے کراچی کو بم کی سی صورت دے دی ہے۔ اس وقت شہر میں متعلقہ اداروں کے ناک کے نیچے 354 مخدوش عمارتیں موجود ہیں جن کو متعلقہ اداروں نے صرف خطرناک قرار دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر لی ہے۔

جو معمولی زلزلے کی صورت میں بہت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس حادثے کو رونما ہونے سے روکا بھی جا سکتا ہے لیکن یہ کون کرے گا کس ادارے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ زلزلہ سونامی کو جنم دیتا ہے۔ایک مشق کے بعد پاکستان میں ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ ایک بڑے سونامی کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔مختلف تجربات سے یہ بات ثابت ہوئی ہے۔

کہ اگر سونامی آتا ہے تو نتیجے میں تین سے 23 فٹ بلند لہریں اٹھیں گی جو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں پورا شہر ختم ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں انتہائی طاقتور ہوں گی۔اگر ہم کراچی کے ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ کراچی میں 1945ء میں سونامی آیا تھا جس میں کم از کم 4 ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ کراچی سے کیٹی بندر کے درمیان واقع 100 کلو میٹر کی ساحلی پٹی کے متعدد دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اقوام متحدہ نے حال ہی میں ایک مصنوعی زلزلے کے ٹیسٹ کے بعد پیشگوئی کی تھی کہ سونامی آنے کی صورت میں کراچی کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہوسکتے ہیں بلکہ وہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ سکتا ہے۔