|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2019

بھارتی میڈیا کے مطابق کشمیر کے22 سے زیادہ اضلاع میں دن کے اوقات میں پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں۔28 ستمبر کو بھارتی خبر ایجنسی اے این آئی نے جموں و کشمیر کےDGP دل باغ سنگھ کے حوالے سے بتایا کہ ” کشمیر میں 105 پولیس تھانوں کی حدود میں دن کے وقت پابندیاں نرم کر دی گئی ہیں اور صورت حال میں بہتری آنے کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے”۔اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ بھارت نے 5 اگست کوآئین کے آرٹیکلز370 اور35a کو ختم کرنے کے بعدجو کرفیو لگایا تھا وہ بھی اٹھا لیا گیا ہے یا نہیں۔ان آئینی دفعات کے خاتمہ سے ایک خود مختار ریاست کے طور پر جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔

پاکستان اور سول سوسائٹی کی دیگر تنظیموں نے کشمیر کی صورت حال کے بارے میں جو آواز اٹھائی یہ سب کچھ اس کا نتیجہ ہے۔ تاہم، ایک اور معتبر خبر رساں ادارے روئٹر نے اسی روز یہ خبر دی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے ایک دن بعد کشمیر میں ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے لوگوں کی نقل و حرکت پر پولیس کی پابندیاں سخت کر دی گئیں۔اس تقریر میں انھوں نے خبردار کیا تھا کہ کشمیر میں پابندیاں اٹھنے کے بعد خون خرابہ کا خطرہ ہے۔

بھارتی حکومت نے خصوصی حیثیت کو،جو جموں و کشمیر کو آئین میں دی گئی تھی، یک طرفہ طور پر واپس لینے کے اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کر دیا تھا۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں حکومتیں غیر جمہوری اقدامات کرنے کے بعد اکثر انتہائی بُرے حالات پیدا کر دیتی ہیں تاکہ بحث ان کے اقدامات پر نہ ہو بلکہ اس کا رخ غیر جمہوری اقدامات کے بعد پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی صورت حال کی طرف مڑ جائے۔کشمیر اور بھارت کے عوام کو اب امید ہے کہ سپریم کورٹ مودی کے اس یک طرفہ اقدام کو ختم کر دے گی۔

وزیر اعظم عمران خان یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنی کوششوں سے کم سے کم کرفیو تو ختم کر ا دیا۔مگر پاکستانی دفتر خارجہ پر اس حوالے سے شدید تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ16 ملکوں کی تائید حاصل کرنے کے قابل نہ ہو سکاجو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف قرارداد پیش کرنے کے لیے ضروری تھی۔

دفتر خارجہ کی طرف سے کیے جانے والے یہ دعوے جھوٹ لگتے ہیں کہ اسے58 ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ملیحہ لودھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر پر بحث جاری رکھنے میں کامیاب رہیں۔یہ کہا گیا کہ سلامتی کونسل نے پچاس سال بعد اس مسئلہ کو اٹھایا۔کشمیر کے مسئلہ کو بھارت کی مخالفت کے باوجود واپس سلامتی کونسل کے ایجنڈا پر لانے میں ملیحہ لودھی کی انتھک محنت کا بہت عمل دخل تھا۔ان کی جگہ لائے جانے والے منیر اکرم،جنرل مشرف کی پسند تھے جنھوں نے انھیں اقوام متحدہ میں پاکستان کا مندوب مقرر کیا تھا۔انھوں نے اپنے تقرر کے دوران کچھ نہیں کیا تھا۔

اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کی تقریر کے تجزیہ کی طرف آتے ہیں۔بہت شور مچایا گیا تھا کہ یہ تقریر بھارتی مظالم کے حوالے سے انتہائی سخت ہو گی مگر انھوں نے اسے تقریر کے پہلے پوائنٹ کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے کشمیر کے مسئلہ کا تقریر کے آخر ی حصے میں ذکر کیا۔

مسئلہ کشمیر کے حل کی فوری ضرورت پر بات کرنے کا موقع گنوا دیا گیا کیونکہ اسے تقریر کے آخر میں اٹھایا گیا۔یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ اقوام متحدہ کی طرف سے یہ سیشن عالمی درجہ ء حرارت میں اضافہ(گلوبل وارمنگ) کے مسائل پر بات کے لیے وقف تھا۔

وزیر اعظم کے حامی ان کے دفاع میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے پہلے گلوبل وارمنگ پر اس لیے بات کی کہ یہ اجلاس کا موضوع تھا مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ وہ کشمیر کے بنیادی مسائل سے ہٹ گئے اور اس سوال کو سیاسی قیادت کی طرف سے منی لانڈرنگ کنٹرول کرنے میں ان کی مدد کے لیے مغربی ملکوں سے اپیل کے بعد تک اٹھا رکھا۔یہ ایک داخلی مسئلہ تھا جس کو انھوں نے بین الاقوامی فورم پر اٹھایا اور یوں ملک کی بدنامی ہوئی۔

ہم پہلے ہی FATF کی گرے لسٹ میں آنے کے خطرے سے دوچار ہیں اور اس سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔ مجھے نواز شریف کی طرف سے منعقد کی گئی ایک کانفرنس یاد آ گئی جو پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکہ کیے جانے کے بعد ہوئی تھی۔ اس میں اسٹیٹ بینک کے گورنر یعقوب نے ایک جوشیلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پا کستان کے کاروباری لوگ کرپٹ ہیں۔ان کاروباری افراد اور گورنر کے درمیان گرما گرم بحث کے دوران کراچی کے ایک بزنس مین واجد جواد نے کہا کہ” سر، گورنر یعقوب شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری ایک بیٹی ہے جو کرپٹ اور بد صورت ہے اس لیے کون اس سے شادی کرے گا”؟ اس پر ایک زوردار قہقہہ لگا اور ماحول ٹھیک ہو گیا۔

بین الاقوامی فورم پر وزیر اعظم عمران خان کا یہ کہنا بلا جواز تھا کہ پاکستانی کاروباری لوگ اور سیاست دان کرپٹ ہیں۔تاہم انھوں نے اس بارے میں مناسب بات کی کہ امیر ممالک گلوبل وارمنگ کے مسئلہ پر صرف زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں اور کاربن کے اخراج کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ ان کے اس دعویٰ کی غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکتی کہ خیبر پختونخوا میں ان کی حکومت نے پانچ سالوں کے دوران ایک بلین پیڑ لگائے تھے۔