سوال: 2018ء کے عام انتخابات کی شفافیت سے آپ مطمئن ہیں؟
جواب: واحد انتخابات 1970ء کے تھے جس سے نہ صرف عوام بلکہ تمام سیاسی جماعتیں مطمئن تھیں مگر بدقسمتی سے اس انتخابات کے نتائج کو بھی قبول نہیں کیاگیااوراسی نتائج کے باعث بنگلہ دیش معرض وجود میں آیاجبکہ بلوچستان اور کے پی کے میں نیپ کی حکومت کو ختم کیا گیا،جس کے بعد جو بھی انتخابات ہوئے ان سے کوئی بھی مطمئن نہیں، 1985ء کے انتخابات غیر سیاسی ہوئے تھے، 1988ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والی حکومت کی بھی مدت پوری نہیں ہونے دی گئی اب جو بھی انتخابات ہوئے ہیں کسی پر چھوٹے تو کسی پر بڑے سوالیہ نشان ہیں جہاں تک 2018ء کے عام انتخابات کی بات ہے۔
تو جو مینڈیٹ عوام نے ہمیں دیا تھا اس کے حقیقی نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا،انتخابی مہم کے دوران عوامی اعتماد جو دیکھا مگرنتائج اس کے برعکس نکلے،ہمارا اندازہ تھا کہ صوبائی اسمبلی کی 14جنرل نشستوں جبکہ قومی اسمبلی میں 8نشستیں ہماری ہونی چاہئے تھی مگر راتوں رات نتائج تبدیل کئے گئے جس کی واضح مثال این اے 265 میں الیکشن ٹریبونل کافیصلہ ہے جوکہ کوئٹہ شہر میں یہ نشست ہے۔
جہاں تمام تر سہولیات دستیاب ہیں اب اندرون بلوچستان کی صورتحال سے خود اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں پر میڈیا، سوشل میڈیا، عوام کی پولنگ بوتھ تک رسائی سمیت دیگر سہولیات موجود نہیں کہ وہاں کس طرح سے نتائج تبدیل کرکے دھاندلی کی گئی ہے اس لئے میں 2018ء کے انتخابات سے کسی صورت مطمئن نہیں ہوں۔
سوال: 2018ء کے انتخابات میں آپ نے کہاتھاکہ حکومت بنانا ہمارا حق ہے پھر حکومت بنانے میں کامیاب کیوں نہ ہوسکے؟
جواب: یہاں پر الیکشن فری ریگنگ ہوتے ہیں اور اس میں اپنی من پسند جماعتوں کو جتواتے ہیں،اس بار بلوچستان میں فری پول انتخابات ریگنگ تقریباََ دوماہ قبل شروع ہوئے تھے، ایک ہی دن میں جماعت تشکیل دی گئی پھر اس کی کابینہ بنائی گئی اور کونسل سیشن ہواجبکہ بڑی شخصیات نے شمولیت اختیار کی، انتخابات سے قبل رجسٹریشن کا جوعمل ہے کہ سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہو مگر چند ہی دنوں ایک جماعت کی رجسٹریشن ہوجاتی ہے۔
پھر جیسے انتخابات ہوتے ہیں تو آزاد امیدواروں کو بھی لاٹھی کے ذریعے ہانک کرکے اس جماعت میں شامل کیا گیا، جہاں تک حکومت بنانے کی بات ہے تو یہ کسی سیاسی جماعت کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حکومت بناسکے یہاں پر حکومتیں کسی اور کے کہنے اور اشاروں پر بنائی جاتی ہیں،اب ایک ماہ کے اندر جتنی محنت ایک جماعت پر کی گئی تھی تو ہم سے زیادہ حق انہی کا حکومت بنانے کا تھا۔
سوال: کیا یہ بات درست ہے کہ بی این پی کے ساتھ پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم شخصیات حکومت بنانے کیلئے رابطہ میں تھے؟
جواب:ہم سے رابط تو کیا گیا مگر ہمیں جوڑنے کی بجائے ان کا مقصد ہمیں تھوڑنے کیلئے تھا،ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اپنے اتحادی ایم ایم اے کے ساتھ ملکر حکومت بنائینگے مگر یہ بات جب ان کومعلوم ہوئی تو انہوں نے ہم سے الگ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں سے الگ رابطے کرنا شروع کئے، وہ چاہتے تھے کہ ہمیں دو چار وزارتیں دیکر ہمارا اتحاد توڑ دیں اوریہی پیشکش جے یوآئی ف کو بھی کی گئی تھی تاکہ ہمارا اتحاد ٹوٹ جائے مگر اس میں انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑا۔
سوال: بلوچستان عوامی پارٹی پر آپ تنقید تو کررہے ہیں مگر یہی ارکان تھے جنہوں نے مسلم لیگ ن کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی تو آپ نے ان ارکان کا ساتھ دیا، یہ سیاسی فیصلہ تھا یا پھر قبائلی پر ووٹ دیا تھا؟
جواب: جب ہم عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی اس وقت باپ کا وجود نہیں تھا بلکہ مسلم لیگ ن تھی، اس دوران مسلم لیگ ن کے اندر اختلافات تھے جس طرح آج بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر اختلافات ہیں۔مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں مسلم لیگ ن اور قوم پرستوں کا رویہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ساتھ انتہائی منفی تھا، ترقیاتی کاموں،انتظامی معاملات اور سیاسی انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
جس میں مسلم لیگ ن کا اہم کردار تھاجو ہماری جڑوں کو کاٹنا چاہتی تھی، کارکنوں کو ٹارگٹ کیاجارہا تھااس دوران جو بھی ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے تھے وہ سیاسی نہیں تھے بلکہ سرکاری مشینری کوبھرپور طریقے سے ہمارے خلاف استعمال کررہے تھے تو ہمارا حق تھا کہ اس سرکار کو کمزور کیاجائے تو ہمارے خلاف تمام تروسائل استعمال کررہی ہے، بحیثیت سیاسی وجمہوری جماعت تو پھر ہمارا بھی حق بنتا تھا کہ عدم اعتماد کے سیاسی عمل کا حصہ جائیں۔
سوال: 1997ء کے انتخابات میں بھی ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں پہلے مرحلہ میں سردار اختر مینگل وزیراعلیٰ جبکہ دوسرے مرحلہ میں نوابزادہ سلیم بگٹی وزیراعلیٰ بنیں گے مگر یہ اتحاد چند ہی ماہ کے اندر ٹوٹ گیا، اتحاد ٹوٹنے کی وجوہات کیا تھیں؟
جواب:یہ تاریخ کے تلخ حقائق ہیں جس پر بولنا مناسب نہیں سمجھتا، نواب اکبرخان بگٹی بھی اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں،میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی طرف سے غلطیاں ہوئی شاید ہم سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہونگی جس کی وجہ سے ہم اس اتحاد کو آگے لیکر جانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اس دوران تین جماعتوں کے درمیان معاہدات ہوئے تھے، اب بہت سی شخصیات دنیا میں نہیں ہیں اس لئے تاریخ کے اس اوراق کو پلٹنا مناسب بھی نہیں ہوگا۔
بہرحال اس تمام سیاسی صورتحال کے دوران غلطیاں دو نوں طرف سے ہوئی تھی جس کی وجہ سے ہمیں اور بلوچستان کو نقصان بھی اٹھاناپڑا،سیاسی جمود رہالوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی جس کے قصور وار ہم سب ہیں۔
سوال: سیاسی اتحاد ٹوٹنے کے بعد آپ بھی محض 13ماہ تک وزیراعلیٰ رہے اور آپ کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی، کیوں؟
جواب: میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہمارے حقیقی بنیادوں پر کوئی اختلافات نہیں تھے،البتہ وفاقی حکومت کو ہمارے صوبے کے مطالبات ناگوار گزرے ہوں جو آج بھی اسی طرح ہے کہ مرکز کا رویہ بلوچستان ساتھ بالکل مختلف ہے، بہرحال ہمارے مطالبات کے بعد ایک سازش تیار کی گئی جس میں ہماری جماعت کو تقسیم کیا گیاپھر وہی سیاسی شخصیات نے دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کی مگر آج دیکھیں کہ وہی بلوچستان نیشنل پارٹی ماضی کی نسبت زیادہ مضبوط ہے کیونکہ آج ہمارے ورکراور کیڈر میں حوصلہ اور جدوجہد کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے مگر جن لوگوں نے پارٹی کے خلاف سازش کی آج وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں۔
سوال: پونم کا بنیادی مقصد کیاتھا؟بی این پی اور پشتونخوامیپ میں باز سیاسی نکات پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے تو پھر پونم پر اتفاق کیسے بنی؟
جواب: معروضی وسیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں اتحاد تشکیل دیتی ہیں،پونم کا اتحاد بلوچستان سمیت ملک کے معروضی حالات تھے جس میں خاص کر چھوٹی قومیتوں کے نمائندگان نے یہ محسوس کیا کہ چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے حصول کیلئے ملکی سطح پر ایک اتحاد تشکیل دی جاسکے جو ملک گیر جدوجہد کرسکے البتہ ہر جماعت کا پارٹی منشور اپنا تھا لیکن کسی جماعت کو اپنی پارٹی پالیسی کا کوئی ایجنڈا جلسے، کارنر میٹنگز میں کہنے پر پابندی تھی جو پہلے سے ہی طے کیا گیاتھا۔
تاکہ کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے سے کسی علاقے اور لوگوں کی دل آزاری نہ ہوسکے اور اس میں ہم کامیاب رہے۔ مسلم لیگ ن اور پرویز مشرف کے دور میں پونم کی تحریک زبردست طریقے سے آگے جارہی تھی اور ملک بھر میں اسے پذیرائی مل رہی تھی خاص کر بلوچستان میں بلوچ اور پشتون علاقوں میں زبردست انداز میں پذیرائی ملی، مگر مشرف دور جب اپنی انتہاء کو پہنچا تو جس طریقے سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کیا گیا۔
تو اس دوران ہماری جماعت نے یہ محسوس کیا کہ جس طرح سے بی این پی کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اس میں پونم میں شامل جماعتوں کو ساتھ دینا چاہئے انہوں نے وہ کردار ادا نہیں کیا، ہماری جماعت کے لوگوں کو جیلوں، قید خانوں اور ٹارچر سیلوں میں ڈالا جارہا تھا تو ہم نے اس کا گلہ بھی پونم میں شامل اتحادیوں کے ساتھ کیا مگر پونم کا کوئی اجلاس تک نہیں بلایا گیا، جب تک پونم کی قیادت بلوچستان نیشنل پارٹی کے ہاتھ میں تھی تو اسے بہتر انداز میں چلایاجارہا تھا مگر جب قیادت دوسری جماعت کے پاس گیا تو انہوں نے پونم کو دفناکر 2013ء کے انتخابات کے نتائج کی خاطر اپنے مفادات حاصل کئے۔
سوال: 2004ء کے دوران بھی قوم پرستوں نے چار جماعتی اتحاد تشکیل دی، نواب اکبرخان بگٹی کے واقعہ کے بعد صورتحال تو بدل گئی مگر دو جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی جو عدم تشدد کی سیاست پر یقین رکھتے تھے کیا وہ اس اتحاد کو ملکر برقرار نہیں رکھ سکتے تھے؟
جواب: چار جماعتی اتحاد ابھی پہلے مرحلے میں داخل ہورہی تھی اس دوران کوئی ڈھانچہ اور منشور بھی نہیں بنایا گیا تھا، چار جماعتی اتحاد ایک کوشش تھی لیکن ہم سب اس میں ناکام ہوئے، ایک دوجلسے اور میٹنگز ہوئی تھی مگر کوشش یہی تھی کہ اس کا باقاعدہ ایک اسٹرکچر بنایاجائے جو ہم نہیں بناسکے پھر اسی دوران نواب اکبرخان بگٹی کا واقعہ رونما ہواپھرسیاسی جماعتوں کے اندر ایک افراتفری کی صورتحال پیدا ہوگئی۔
تواسی دوران ہم نے تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرکے اتحاد کو آگے بڑھانے کیلئے کوشش کی اورنواب اکبرخان بگٹی کے واقعہ پر احتجاجاََ ہم پارلیمنٹ سے استعفیٰ دیدیں بلوچستان نیشنل پارٹی اس پر قائم رہی مگر دوسرے اتحادیوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیاجس کے بعد پھر چار جماعتی اتحاد کے متعلق کوئی نشست ہوئی اور نہ ہی کوئی اجلاس ہوسکا، جہاں تک نیشنل پارٹی کا تعلق ہے ہم نے بہت قربت کی کوشش کی اور بات چیت بھی بہت حد تک آگے بھی جارہی تھیں، 2013ء کے انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی کے ایک وفد سے دبئی میں ملاقات ہوئی تھی۔
جس میں ہماری جماعت کے سینئر رہنماء بھی موجود تھے انتخابات کے حوالے سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات ہوجائے بلکہ پورے بلوچستان میں ایک اتحاد کی صورت میں عام انتخابات میں حصہ لیں لیکن جس دن دبئی سے میں کراچی پہنچا تو انہوں نے میرا انتظار کئے بغیر جلدی بازی کہاجائے یا کسی کے اشارے پر ایک ضلع میں جمعیت علمائے اسلام ف سے اتحاد کیا اب ظاہر ہے کہ جس بنیاد پر ہم اتحاد تشکیل دیکر بہتر طریقے سے کامیابی حاصل کرسکتے تھے۔
تو اس معاملے پرنیشنل پارٹی نے ہمیں مکمل طورپر نظرانداز کرکے جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ اتحاد کیا اور دیگر علاقوں میں وہ ہماری حیثیت تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں تھے پھر اس کے بعد نیشنل پارٹی کے ساتھ ہماری کوئی میٹنگ بھی نہیں ہوئی۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران اور بعد میں حکومت سازی کے وقت بھی ہمیں آن بارڈ نہیں لیاحالانکہ ہمارے دو ممبران تھے لیکن انہوں نے گوارہ نہیں سمجھا کہ وہ ہم سے بات چیت کرسکیں۔
نیشنل پارٹی نے پشتونخواہ میپ، مسلم لیگ ن اور آزاد اراکین کو اپنے ساتھ ملایاپھر حکومت سازی شروع کی اور اعلان بھی کیا جس کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مجھ سے ملاقات کیلئے آئے تو حکومت سازی کے حوالے سے ہمیں کوئی دعوت نہیں دی اور نہ ہی ہمیں حکومتی حصہ بننے کا شوق تھا پھر بس بات چیت کے دوران میں نے ان کے پیٹھ پر ہاتھ مارا اور کہا ”جہاں بیٹا چڑھ جاسولی پہ رام بھلی کرے گا“۔
سوال: 2018ء کے عام انتخابات میں پھر بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی نیشنل پارٹی کو اہمیت نہیں دی، پچھلا حساب برابر کرنا تھاکیا؟
جواب: نیشنل پارٹی کا رویہ پچھلی حکومت کے دوران دوستانہ ہوتا تو ہم ان کی طرف ہاتھ بڑھاتے لیکن نیشنل پارٹی، پشتونخواہ میپ اور مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں جس طرح سے ہمارے پارٹی کارکنوں کا قتل اور اغواء کے واقعات سمیت جو زیادتیاں کی گئی میں یہ کہنے پر حق بجانب ہونگا کہ مشرف دور میں بھی اس طرح کے ظلم ہم پر نہیں ڈھائے گئے جو ہماری ایک خواہش تھی تو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی اسے دفنادیا۔
سوال: آپ نے پی ٹی آئی کے سامنے چھ نکات رکھے ہیں اور ایک سال کا وقت دیا تھا، کمیٹی بھی بن گئی ہے جبکہ ایک سال کی مدت بھی پوری ہوگئی ہے، اب تک چھ نکات میں سے کن اہم نکات پر عملدرآمد ہوا ہے؟
جواب:چھ نکات کو پتہ نہیں لوگ کیا سمجھ بیٹھے ہوئے ہیں، ملک بالخصوص بلوچستان میں یہ روایت رہی ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے حوالے سے دوڑ لگ ہوتی ہے کہ اقتدار مل جائے،کتنی وزارتیں، پورٹ پولیوملیں گی تمام معاہدات اسی زمرے میں کئے جاتے ہیں یہاں پر تو پوری کی پوری اسمبلی وزیر رہی ہے کابینہ بھی اسمبلی ارکان کی تعداد کے برابر رہی ہے اس سے مسائل حل نہیں ہوتے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی نے ہمیشہ بلوچستان کے مسائل کے حل کا سوچا ہے اور اسی کیلئے جدوجہد کی ہے۔ جب تک بلوچستان کے سیاسی، معاشی اور ترقیاتی مسائل حل نہیں ہونگے حکومتیں چلانا بے مقصد اور بے سود ثابت ہوگا۔ ہم نے چھ نکات کی شکل میں مرکزکے سامنے یہ معاہدہ رکھا، مرکز کے نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کرکے بلوچستان کے 70 سالہ مسائل کوخود تسلیم کیا کہ یہ حقیقی اور اہم مسائل ہیں جنہیں حل کرناہونگے۔
اور یہ حل طلب بھی ہیں، پی ٹی آئی کے مرکزی وصوبائی قیادت کے دستخط اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان مسائل کو حل کرکے ہم بلوچستان کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتے۔ لاپتہ افرادکامسئلہ،افغان مہاجرین، فیڈرل سروسز میں بلوچستان کے کوٹہ کامسئلہ، فارن سروسز، ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام نکات پر دستخط ہماری کامیابی کی پہلی اینٹ کی بنیاد رکھی گئی، اب اس پر عملدرآمد کی بات ہے تو 70 سالہ مسائل ایک دن اور ایک سال میں بھی حل نہیں ہوسکتے۔
بلکہ اس کے حل کیلئے نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں مرکز اورصوبے میں بنی ہیں ان کے ساتھ جو بھی معاہدات ہوئے ہیں ان میں بلوچستان کے ان حقیقی مسائل کوکبھی بھی رکھنا گوارانہیں سمجھااور نہ ہی مرکزی حکومتوں نے بلوچستان کے مسائل کو تسلیم کرنے اور سننے کو اہمیت نہیں دی۔موجودہ حکومت کی جتنی بھی خامیوں کی بات کریں اور یہ کہوں کہ انہوں نے ہمارے جتنے مطالبات ہیں۔
ان پر عملدرآمد کیا ہے مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ہماری بات تو سنی اور میں نے بار بار ان کے سامنے لاپتہ افراد کے معاملے کو اٹھایاجس کے نتیجے میں 5ہزار 1سو28 لاپتہ افراد میں سے 400 لوگ بازیاب ہوگئے ہیں اور میں اب بھی یہی کہونگا کہ جتنے بازیاب ہوئے ہیں ان سے زیادہ لاپتہ بھی ہوچکے ہیں اور یہ بات میں نے قومی اسمبلی اور میٹنگز کے دوران بھی کہی ہیں۔
وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے اہم پروجیکٹ کو شامل کرنے سمیت ان کی منظوری میں ہم کامیاب ہوئے ہیں جن میں خاص کر سڑکیں، ڈیمز، گرڈاسٹیشنز، پانی کی فراہمی جیسے اہم منصوبہ بھی شامل ہیں۔ریفائنری اور گوادرکی ڈیموگرافی کے حوالے سے بات کی ہے جس پراب تک قانون سازی تو نہیں کی گئی ہے البتہ مرکزی حکومت کی کمیٹی اس پر کام کررہی ہے جبکہ ہماری ٹیم نے ڈرافٹ تیار کرلیا ہے اور اسلام آباد جاکر مرکزی حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کرکے اس بل کی منظوری کی فوری طور پر عمل کرنے کی بات کرینگے۔
تاکہ سی پیک کے نام پر بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش ہورہی ہے اسے روکنے کیلئے قانون سازی کی جائے۔بہرحال چھ نکات کے حوالے سے میں اب بھی مطمئن نہیں ہوں ایک سال کے دوران جوکام ہونا چاہئے تھا وہ ابھی تک نہیں ہوا ہے، اگلی جو میٹنگ ہوگی اس پر صرف تسلی پر اکتفا نہیں کرینگے بلکہ نتائج کے ذریعے ہمیں مطمئن کرنے کی بات کرونگااگر نتائج دینگے تو ہم ان کے ساتھ چلیں گے حسب روایت تسلیاں دی جائینگی تو اس پر ہمارا گزارا حکومت کے ساتھ نہیں ہوگا۔
سوال: آپ کہہ رہے ہیں کہ ایک سال کے دوران چھ نکات پر عملدرآمد کے متعلق مطمئن نہیں ہوں تو اب مرکزی حکومت کے ساتھ اگلی نشست پر مزید کتنا عرصہ درکارہوگا؟
جواب:اب دیکھتے ہیں کہ وہ کتنا وقت مانگتے ہیں میں تو فوری طور پر عملدرآمد چاہتا ہوں۔
سوال: بلوچستان کے میگامنصوبوں سے کمپنیاں اور وفاقی حکومت زیادہ فائدہ اٹھارہی ہیں جبکہ صوبہ کو اس کا جائز حق بھی نہیں مل رہا مگر ہماری سیاسی جماعتیں خاموش ہیں کیونکر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں؟
جواب: جب کوئی کسی گاؤں اور گھرکو لوٹنے آتا ہے تو جب اس کے رکھوالے اور مالک آنکھیں بند کردیتے ہیں تو ڈاکوکو لوٹ مار کیلئے آسانی ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑے قصور وار وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے آنکھیں بند کرکے ان میگامنصوبوں پر دستخط کئے، ایک منصوبہ کیلئے ہمارے دور میں بھی معاہدہ آیا تھا 1998ء میں وفاقی نجکاری کا وزیر ہمایوں اخترنے مجھے فون کیا تھا کہ ہم گوادر میں ڈیپ سی فشنگ کرنا چاہتے ہیں۔
اس حوالے سے آپ کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے تو ہماری ملاقات ہوئی پھر امریکن ایک کمپنی پابزنامی تھی جو بعد میں پتہ چلا کہ وہ فیک کمپنی ہے بہرحال کمپنی کے ذمہ داران نے ہمیں پریزینٹیشن دی کہ ہزاروں کی تعداد میں ہم بڑے بڑے ٹرالرز لائینگے، ہزاروں کی تعداد میں یہاں کے لوگوں کو روزگار فراہم کرینگے جبکہ ڈیپ سی فشنگ کرینگے جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کتنے لوگوں کو روزگار دینگے۔
تو انہوں نے کہاکہ 2ہزار لوگوں کو ہم ملازمتیں دینگے، میں نے ان سے کہا کہ جیونی سے لیکر گڈانی تک ہمارے کتنے ماہی گیراور ان کی لانچیں ہیں توکمپنی انتظامیہ نے کہاہمیں معلوم نہیں، میں نے ان سے کہاکہ ایک لانچ پر پانچ خاندان کا روزگار جڑا ہوا ہے جبکہ 8ہزار کے قریب لانچیں مقامی لوگوں کے ہیں جس سے 40ہزار لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اسی ماہی گیری کے شعبہ سے ان کا گھر چلتا ہے۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ 2ہزار ملازمت کے بدلے 40ہزار لوگوں کو بیروزگار کیاجائے یہ کونسا ترقی کا فارمولاہے پھر ہم نے ان کے ساتھ میٹنگ کا سلسلہ بند کردیاپھر اسلام آباد میں میٹنگ ہورہی تھی جہاں پر ایم اویوسائن ہورہا تھا میں بھی ان دنوں اسلام آباد میں تھامجھے وزیراعظم کی کال آئی اور کہاکہ آپ اس میٹنگ شرکت کریں میں نے صاف انکار کیا اور نہ ہی اس میں ہمارا کوئی نمائندہ شریک ہوگاتمام وزراء کومیٹنگ میں شرکت کرنے سے منع کردیاتھا۔اس کے بعد انہوں نے اے سی ایس کو کال کیاوفاقی کابینہ کی طرف سے کہ بلوچستان کا کوئی بھی نمائندہ اس میں شرکت نہیں کررہا ہے۔
لہٰذا آپ اس میٹنگ میں شرکت کرنے کیلئے آجائیں پھر اے سی ایس نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مجھے میٹنگ کیلئے بلایا گیا میں جاؤں تو میں نے کہاکہ آپ اسلام آباد اگر جاوگے تو بوریاں بستر لیکر جانا دوبارہ بلوچستان مت آنا۔ اگر ہم چاہتے تو معاہدہ کرتے اور کچھ دن ہمارے بھی اچھے گزرتے مگر اس کے بعد بلوچستان کے ماہی گیروں کی بددعائیں آج تک ہمیں ملتی۔
وفاقی حکومت کو ہم جتنا قصور وار ٹہرائے مگر سب سے زیادہ قصور وار اور ذمہ دار ہمارے صوبائی نمائندگان ہیں کیونکہ یہ صوبائی نمائندگان عوامی نمائندگان نہیں ہیں یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آتے ہیں ان کو سلیکٹ کرکے لایاجاتا ہے پھر انہیں عوام کی احساس محرومی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ وہ عوام کونہیں بلکہ جوانہیں سلیکٹ کرکے لائے ہیں یہ ان کو جوابدہ ہیں۔
سوال: موجودہ صوبائی حکومت کی میگامنصوبوں کے متعلق پالیسیوں کو آپ کس طرح دیکھ رہے ہیں کیا ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیاجارہا ہے؟
جواب: پچھلی اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق بتائیں صرف کپڑے تبدیل کئے گئے ہیں باقی لوگ تو وہی ہیں جھنڈے بدل کر نظریہ تبدیل نہیں ہوجاتااور نہ ہی نام اور نعرے بدل کر لوگوں کی سوچ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ 2008سے لیکر اب تک وہی لوگ ہیں شاید چند ایک موجود نہ ہوتو ہم کیسے یقین کریں کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں فرق ہوگا۔
سوال: وزیراعظم عمران خان نے سی پیک سے جڑے مغربی روٹ کا افتتاح کیاہے، اس حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے یہ حقیقی مغربی روٹ کا افتتاح تھا؟
جواب: مسلم لیگ ن کے دور میں جب میاں محمد نواز شریف تشریف لائے تھے تو انہوں نے ژوب میں تختی لگاکر مغربی روٹ کا افتتاح کیا تھااور اس دوران بلوچستان اور کے پی کے سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی اور بہت خوشی کا اظہار کیا تھا تختی کے افتتاح کے دوران رسی پکڑنے کی جگہ نہیں تھی اتنے ہاتھ رسی کو کھینچ کر مغربی روٹ کاافتتاح کررہے تھے میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ماموں بنارہے ہیں، فرق یہ ہے کہ پہلے ژوب میں ماموں بنایاگیا اب کوئٹہ میں آکر ان کو ماموں بنایاگیا۔
سوال: گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا بھی افتتاح کیا گیا اس پر آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: گوادر ائیرپورٹ کس کیلئے بنارہے ہیں، بلوچستان کے غریب عوام کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ لوکل کوچز کے ذریعے کراچی تک کا سفر کریں، گوادر سے کراچی ہوائی سفر کاریٹرن ٹکٹ 18سے 20 ہزار روپے سے کم نہیں ہوگا،خدارا پہلے غریب عوام کی معاشی صورتحال کو توبہتر کریں تاکہ وہ باآسانی سفر کرسکیں، روزگار، تعلیم،صحت اور صاف پینے کے پانی کی سہولیات پہلے فراہم کئے جائیں۔ یہ جو انٹرنیشنل ائیرپورٹ گوادر کے مقامی لوگوں کیلئے نہیں بن رہا ہے اب یہ بھی معلوم نہیں کہ کب یہ ائیرپورٹ مکمل ہوگا البتہ اس کا فائدہ بلوچستان کے عوام کو نہیں پہنچے گا۔
سوال: آپ کی باتوں سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ آنے والے مزید 70 سال تک بلوچستان اسی طرح پسماندہ رہے گا، کیا کبھی بھی بلوچستان ترقی نہیں کرے گا، اسلام آباد کا رویہ اپنی جگہ قوم پرستوں میں بھی اتحاد دکھائی نہیں دیتا، بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی پسماندگی کے حوالے سے ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے پھر عوام کس سے امید رکھیں؟
جواب:بلوچستان کے مسئلے کو دو پیرامیٹر پر رکھنا ہوگا، اگر اسلام آباد بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تو اسے پہلے اپنی نیت ٹھیک کرنی ہوگی، موجودہ وفاقی حکومت اگر ماضی کی مرکزی حکومتوں کی روش پر چلتے ہوئے بلوچستان کو کالونی کی حیثیت سے سمجھ کرمسائل حل کرنے کی کوشش کرے گا تو قیامت تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہونگے،اس رویہ سے بلوچستان تو نہ ترقی کرے گا نہ امن وامان بہتر ہوگا اور نہ ہی بلوچستان کی محرومیاں ختم ہونگی۔
جب تک احساس محرومی ختم نہیں ہوگی تب تک عوام میں موجود بے چینی کا خاتمہ نہیں ہوگایہ اب وفاقی حکومت پر منحصر ہے۔ دوسرا بلوچستان کی قوم پرست، مذہبی جماعتوں اور دیگرسیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے انہیں سرجوڑ کر بیٹھناپڑے گا اپنے ذاتی مفادات، انااور خودغرضی کو چھوڑ کرپھر ہم سب ایک آواز بن کر نیک نیتی کے ساتھ جدوجہد کریں ایسا نہ ہو کہ ہم ادھر پلیٹ فارم کھڑے ہوکر نعرہ لگائے اور اُدھر جاکر اپنے مفادات اور وزارت حاصل کریں۔اگر مرکز کے ساتھ ہمیں بات چیت کرنی ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آؤ توپ اور بندوق اٹھاو نہیں بلکہ سیاسی حوالے سے ہم بلوچستان کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ہم نے ابھی کسی حد تک بلوچستان کے مسئلہ کو اجاگر کیا ہے اسی سیاسی طریقے سے ہی سامنے لائے ہیں اگر اسی سیاسی انداز میں بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں ملکر یک زبان ہوکر بات کریں تو جو بلوچستان کے متعلق کالونی ازم کا ایک جوسوچ ہے جسے وفاقی حکومتوں نے رکھا ہوا ہے اسے کم ازکم ختم کرسکتے ہیں۔
سوال: بلوچستان نیشنل پارٹی مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہے کیا موجودہ وزیراعظم اور وفاقی حکومت کی سوچ بلوچستان کے متعلق الگ نہیں، عمران خان نے اپوزیشن میں رہ کر بلوچستان کی محرومیوں پر بہت بات کی تھی اب بھی وہی سوچ برقرار ہے کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے؟
جواب: سب یہی کہتے تھے کہ بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے اور اب بھی کہتے ہیں اور اب جو دوسرے عمران خان کی جگہ پر ہیں وہ بھی یہی بات کرتے ہیں، جب وہ مظلوم ہوتے ہیں تو پھر انہیں مظلومیت کا خیال آتا ہے، جب ان پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں توہمارے اوپر ہونے والے مظالم کو دیکھ کر ہمارے ساتھ آنسو بہاتے ہیں مگر جب اقتدار کی کرسی انہیں مل جاتی ہے۔
تو پھر وہ سابقہ حکومتوں کے رویوں کو اپناتے ہیں،اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ان کو بلوچستان کے متعلق ڈائریکشن، سمجھانے اور بلوچستان کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا ہے ان کے اپنے کنٹرول میں نہیں شایدان کا ریموٹ کنٹرول کہیں اور ہے اور وہی ان کوچلاتے ہیں اور اس لئے ریموٹ کنٹرول پر چلتے ہیں کیونکہ وہ اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں اور ہرکسی نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے بلوچستان کی بھلی دی ہے چاہے وہ 1970ء کے حکمران ہویا پھر 2018کے حکمران ہو۔
سوال: بلوچستان نیشنل پارٹی مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہے جبکہ بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام ف کی اتحادی ہے، کیا بلوچستان نیشنل پارٹی اسلام آباد مارچ میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ جائے گی؟
جواب: بلوچستان میں ہم جے یوآئی ف کے اتحادی ہیں جبکہ مرکز میں ہم آزاد بنچوں پر ہیں، اپوزیشن کے جائز مطالبات پر ہم نے حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود ساتھ دیا ہے، وزیرستان کے دو قومی اسمبلی کے ارکان کا مسئلہ اپوزیشن سے زیادہ ہم نے اٹھایاتھااپوزیشن نے ہچکچاہٹ محسو س کی مگر ہم نے نہیں،جب ہم پر ہانک پڑی تھی تو ہمارا ساتھ کسی نے نہیں دیا تھا، جہاں تک مولانا فضل الرحمان کے مارچ کا تعلق ہے۔
تو میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں چلتی گاڑی کا مسافر نہ سمجھا جائے کہ ہر بس میں بیٹھ جائیں جس میں جگہ نہ ہو بھی تو ہم گھس جائیں یہی جو اپوزیشن میں ہیں گزشتہ دور میں حکمرانی میں تھے۔ہم سے بیٹھ کر طے کریں کہ بلوچستان کے جائز حقوق کیوں نہیں دیئے گئے کیا وجوہات،رکاوٹیں اور مشکلات تھی، حکمران ہوتے ہوئے بلوچستان کے معاملات کو نظرانداز کیا گیا۔
کیوں اور کس کے کہنے پر کیا ہمارے سامنے اس کی وضاحت کریں۔کیا آنے والے دنوں میں ان کا رویہ یہی رہے گا یا پھر تبدیلی لائینگے اگر رویہ تبدیل کرینگے تو آئیں ہمارے ساتھ معاہدہ کریں، کیا پھر حکمرانی مل کر بلوچستان کوقربانی کا بکرا بناکر اس کی بھلی تو نہیں چڑھائینگے،ہمیں یقین دلائیں دیں پھران کا ساتھ دینگے،اپوزیشن کو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا پڑے گا صرف دور سے آواز دیں کہ آوہمارے جلوس اور احتجاج میں شامل ہوجائیں اس طرح نہیں ہوسکتا۔
سوال: نیب کی کارروائیوں کو اپوزیشن انتقامی قرار دیتی ہے جبکہ حکومت کا مؤقف ہے کہ ادارہ آزاد ہے آپ نیب کے اقدامات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں؟
جواب: کون یہاں پر آزاد ہے، کونسا ادارہ آزاد ہے،کیاپارلیمنٹ، عدلیہ آزاد ہیں،یہاں پر جسٹس منیر سے لیکر آج تک جتنے بھی فیصلہ کئے گئے ہیں اور صرف نظریہ ضرورت کے تحت ہی کئے گئے تو شاید یہ احتساب بھی نظریہ ضرورت کے تحت کیاجارہا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ پچھلی دور حکومت میں کرپشن نہیں ہوئی ہوگی مگر دیکھاجائے تو پچھلے ادوار کے وزراء بھی اس حکومت کا حصہ ہیں۔
کیا احتساب صرف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ہونی چاہئے، اس ملک کو لوٹنے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کسی کو بھی موقع ملا اس نے اپنے حصہ سے زیادہ اس ملک میں لوٹ مار کی ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور بلاتفریق ہونی چاہئے پھر ہم سمجھیں گے کہ شفاف طریقے سے احتساب ہورہا ہے۔
سوال: قیاس آرائیاں بہت سے زیادہ چل رہی ہیں کہ مرکز میں تبدیلی آرہی ہے، کیا آپ آنے والے وقت میں تبدیلی دیکھ رہے ہیں؟
جواب: یہ تبدیلی سن سن کر ہم بوڑھے ہوگئے جب سے سیاست کا آغاز کیا ہے یہ لفظ سنتے آرہے ہیں کاش کہ اس ملک میں کوئی یہ کہتا کہ مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ آج دن تک کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ مثبت تبدیلی آرہی ہے، ملک میں جب بھی تبدیلی آئی ہے وہ منفی تبدیلی آئی ہے مثبت تبدیلی کبھی نہیں آئی، یہاں جوبھی آیا پچھلے والے کو یاد کرتا ہے کہ وہ کفن چور تھا اب پچھلے والے کفن چور کو یاد کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ یہ والا کفن کی چوری کے ساتھ کچھ اور بھی لے جائے گا۔
سوال:بلوچستان میں گزشتہ دنوں سیاسی ملاقاتوں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے، بی این پی، پی ٹی آئی جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بھی اہم ارکان نے ملاقات کی ہے، کیا عدم اعتماد کی تیاری ہورہی ہے؟
جواب: کیوں میرے رشتہ دار کے پیچھے پڑگئے ہیں، چھوڑیں کچھ عرصہ گزاریں اگر ایسا کچھ ہوگیا تو اچانک سے ہی ہوگا، وہ کارڈز آپ کے سامنے ابھی ہم نہیں رکھیں گے لیکن ہونے کوتو ہوگاکیونکہ عمل کا تو ردعمل ضرور سامنے آئے گا۔ پچھلے حکومت نے جو کچھ کیا اس کا بھی ردعمل آیا اس حکومت کے خلاف بھی ردعمل آنے والا ہے۔
سوال: آپ نے وفاقی حکومت کے سامنے بلوچستان میں ڈیمز اور شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے مطالبات سامنے رکھے تھے کتنے ڈیمزاور شاہرائیں تعمیر کی جارہی ہیں اور کون سے علاقے اس میں شامل ہیں؟
جواب:سب سے اہم پروجیکٹ جس کو میں نے اسمبلی میں اٹھایا تھا وہ کراچی تا چمن شاہراہ ہے جس کو تعمیر کرنا ہے، 700 کلومیٹر پر محیط شاہراہ ہے، پہلے فیز میں اس کی فزیبلٹی بنانا ہے اور اس میں زمین بھی مختص کرنا ہے جس میں پرائیوٹ اور سرکاری زمینیں شامل ہونگی جس میں وقت بھی لگے گابہرحال پی ایس ڈی پی میں اسے شامل کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔
فزیبلٹی بنانے کیلئے ابتدائی طور پر رقم مختص کئے گئے ہیں جبکہ مستونگ، قلات، خضدار، نوشکی، چاغی میں ڈیمز بنائے جائینگے اور مکران بیلٹ کو نیشنل گرڈ اسٹیشن سے ملانے کا منصوبہ بھی شامل ہے، کوئٹہ ہزار گنجی میں گرڈاسٹیشن،قلات کے علاقے کپوتومیں گرڈاسٹیشن، اورناچ میں گرڈ اسٹیشن کے ساتھ ٹرانسمیشن لائن جبکہ گروک میں بھی گرڈ اسٹیشن تعمیر کیا جائے گا۔
سوال: مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں آپ نے یونیورسٹی کیلئے زمین مختص کی تھی، یونیورسٹی کی تعمیر کاکام کہاں تک پہنچ چکا ہے؟
جواب: 2016ء سے یونیورسٹی کیمپس میں کلاسز کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ اس زمین پر عارضی طور پر سردار منیر کے نام سے ہم نے اسکول کھولا ہوا تھا اس کے اطراف میں کچھ جگہوں پر کلاسز، رومزاور ہال دیئے ہیں جس پر کلاسز شروع کئے گئے ہیں، مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے پی ایس ڈی پی میں کچھ رقم مختص کئے گئے تھے مگر موجودہ حکومت نے جب منی بجٹ پیش کیا تھا۔
تویونیورسٹی کیلئے رقم کو ڈراپ کردیا گیا تھا جس کے بعد مجھ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جب بجٹ پیش کیاجائے گا تو اس میں یونیورسٹی کی تعمیر کیلئے رقم مختص کی جائے گی مگر جب بجٹ میں ایک بار پھر میں نے نشاندہی کرائی کہ رقم مختص نہیں کئے گئے ہیں تو پھر کہاگیا کہ آگے ضرور یونیورسٹی کیلئے۔ زمین رقم رکھی جائے گی اب اس لئے میں ذاتی طور پر زور نہیں دے رہا کہ یہ نہ کہاجائے کہ اپنے علاقے کیلئے صرف یہ بات کررہا ہے حالانکہ اس یونیورسٹی میں بلوچستان بھر سے نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اب دوبارہ میٹنگ ہوگی ہم نے زمین ٹرانسفر بھی کردی ہے مزید پچاس ایکڑ زمین حکومت مانگ رہی ہے تو ہم نے یہی کہا ہے کہ فی الحال اس پر کام کریں مزید پچاس کیا سو ایکڑ زمین بھی ہم دینگے، فی الحال کیمپس فنکشنل ہے اور جو اسکول کی بلڈنگ دی ہے اس پر کام کیاجارہا ہے۔
سوال: خطے میں بدلتی صورتحال کو آپ کیسے دیکھ رہے ہیں، سعودی ایران کشیدگی، افغانستان امن مذاکرات ختم کردیئے گئے ہیں، اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے ان ممالک کے درمیان تو بلوچستان لازمی اس کی زد میں آئے گا، آپ آنے والے وقت میں اس صورتحال کو کس طرح دیکھ رہے ہیں کیا پاکستان اس پورے معاملات پر غیر جانبدار رہ سکتا ہے؟
جواب: دنیا کے بیشتر ممالک کے خارجہ پالیسی منتخب نمائندگان بناتے ہیں، بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی کا اختیار کبھی بھی کسی سیاسی قوت کے پاس تھا اور نہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہم سکڑتے جارہے ہیں۔ ہمارے جتنے ہمسایہ ممالک اگر ہمارے دشمن نہیں تو ہمارے دوست بھی نہیں ہیں۔ تین ہمسایہ ممالک میں سے کسی ایک کابھی نام بتایا جائے کہ جس سے ہمارے انتہائی بہترین تعلقات ہیں۔
ہم یہاں سے چھلانگ لگاکر کھوسو دور ممالک کی جانب جاکر دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں اور دوستی کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر جن سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں ان کی جانب دوستی کا ہاتھ ہم نے کبھی نہیں بڑھایا، اس میں قصور ہمارا بھی ہے اور ممکن ہے کہ ان کا بھی ہو، کیا بطور ہمسایہ ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں، ہمسایہ ممالک سے دوستی کی بجائے ہم نے امداداورمراعات کو زیادہ اہمیت دی اس طرح سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کبھی بھی تعلقات بہتر نہیں رہ سکتے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ہمسایہ ممالک کو نظرانداز کرکے سبزنوٹوں کو زیادہ اہمیت دی۔
چاہے وہ کسی بھی ممالک سے ہم نے امداد لی مگر ضرورت ان کی رہی ہے اگر یہ کہا جائے کہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو عالمی منڈی میں فروخت کردیا ہے انہی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے آج پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ملک کا کوئی ایک کونہ بھی ایسا نہیں کہ دہشت گردی نہیں ہوئی ہے۔ ماضی میں خارجہ پالیسی بنانے والے ذمہ داران کون تھے آج تک کسی سے پوچھاگیا۔
ایوان میں بھی اس سوال کو نہیں اٹھایاگیا، مساجد، امام بارگاہوں،اسکولوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا بڑی تعداد میں جانی نقصان اٹھایاگیایہ تمام دہشت گردی کے واقعات اچانک قدرتی آفت کا تو شاخسانہ نہیں تھے بلکہ یہ انہی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آج تک ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں، آج پھر خطے میں وہی صورتحال پیدا ہورہی ہے پریشانی کی صورتحال ہے۔
ہم نے ہمیشہ دوسروں کی جنگوں کو بلاوجہ اپنے گلے لگایامگرہمسایوں اور دوست ممالک کو ہم نے گلے نہیں لگایا”آبیل مجھے مار والی“ بات ہے۔ خدانخواستہ اگر سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ کھل گیا تو ہم کسی صورت اپنے آپ کو بچا نہیں سکیں گے کیونکہ سعودی عرب اور ایران دونوں کا ساتھ نہیں دے سکتے جو قرضے ہم نے لئے ہیں اس بنیاد پر غیر جانبدار بھی نہیں رہ سکتے اور یہ جنگ افغانستان سے بدتر نتائج سامنے لائے گاپوراخطے میں شام اور یمن سے بھی بدترین صورتحال پیدا ہوگی کیونکہ اس جنگ کا سینٹرل پوائنٹ بلوچستان بنے گا اور یہ آگ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔
سوال: جنگی صورتحال میں مرکزی حکومتوں پر بھی ماضی میں اثر پڑا ہے، اگر سعودی ایران محاذ کھل جائے گا تو کیا مرکزی حکومت میں بھی تبدیلی آئے گی؟
جواب: ابھی تک تو کوئی ایسی گستاخی وفاقی حکومت نے نہیں کی ہے پالیسی کے مطابق چل رہی ہے اگر گستاخی کرینگے تو شاید تبدیلی آئے فی الحال تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا اندرونی خانہ ابھی تک کوئی گستاخی تو نہیں کی ہے جس سے تبدیلی آئے، البتہ تبدیلی لانے والے کسی سے نہیں پوچھیں گے۔
akbal
بہت اچھی پشرفت ہے آپ لوگوں کا انٹرویو کا سلسلہ ہے لیکن آپ لوگ جو سوالات پوچھ رہے ہیں انکے آواز کو ایڈیٹ نہیں کرتے ہیں