کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے کہا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے علاقوں میں پانی،تعلیم اورصحت کے مسائل خود پیدا کر رہی ہے ایسی حکومت کسی صورت عوام کے مفاد میں نہیں ہے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی تحقیقات وزیر اعلی معائنہ ٹیم کے حوالے کرنا70 سال پرانا طرز عمل ہے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات کیلئے حکومت اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے۔
صوبے میں ہر 2 ماہ بعد سیکریٹری تبدیل ہوتے ہیں ایسی صورتحال میں شفافیت کیسے ہوگی۔ گوادر کا ماسٹر لان بنا ہے آج تک بلوچستان کو اور اس اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ان خیالات کا اظہار منگل کے روز صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن چیمبر قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زیرے، رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و رکن بلوچستان اسمبلی نواب محمد اسلم خان رئیسانی، چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو،اراکین اسمبلی زابد ریکی، عبدالواحد صدیقی اور شام لعل لاسی بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیر کے روز ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں پرایوان میں اپنی آواز اٹھائی تاہم وزیراعلی نے تمام تعیناتیوں کو کالعدم قرار دینے کی بجائے بے ضابطگیوں کی تحقیقات وزیر اعلی معائنہ ٹیم کے حوالے کی ہیں جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
انہو ں نے کہاکہ حکومت کے حربوں کوسمجھتے ہیں حکومت نے خود تسلیم کیا کہ محکمہ تعلیم میں ہونے والی تعیناتیوں میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں تاہم معاملہ کو تعطل میں رکھنے کیلئے اسے سی ایم آئی ٹی کے سپردکیا گیا ہے تاکہ تین چار ماہ بعد لوگ اسے بھول جائیں۔
انہوں نے کہا کہ دعوی کیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں شفافیت ہے مگر سب سے زیادہ ناانصافی بلوچستان میں ہورہی ہے صوبے میں آزادی صحافت کا راستہ روکاگیا ہے۔ موجودہ دور حکومت میں ہونے والی ناانصافیوں کی نزرگزشتہ دور حکومتوں میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کی20کے قریب قائم کمیٹیاں بن ہیں جن میں حکومت اور اپوزیشن اراکین کو نمائندگی حاصل ہے۔
ان کمیٹیوں کے قیام کا مقصداسمبلی میں مسودہ قوانین کو لانے سے قبل انہیں قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کیا جائے جو مکمل جائزہ لیکر اسے اسمبلی میں پیش کریں تاہم حکومت ایگزیکٹوآرڈر کے تحت قوانین کو پاس کررہی ہے اور گذشتہ روز بھی اسمبلی کے ضابطے اورآئین کی دھجیاں بکھرتے ہوئے مسودہ قانون کو پاس کرایا گیا انہوں نے کہا کہ نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کے معاملات میں مداخلت ہے اگر فیصلہ وفاق میں ہوتے ہیں تو پھر بلوچستان اسمبلی وزیراعلیٰ اور حکومت کا کوئی فائدہ نہیں ہے انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت اقدام اٹھارویں ترمیم کے تحت بلوچستان کو ملنے والے حقوق سے انکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت بلوچستان کے عوام کے مفاد میں نہیں حکومت صوبے میں ایسی روایات قائم کررہی ہے جسے بلوچستان کے لوگ قبول نہیں کرتے۔ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ گذشتہ روز اسمبلی سے منظور ہونے والے ایکٹ کو ہمیں پڑھنے کا موقع نہیں دیاگیا حکومت نے عددی اعتبار سے زیادہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کوایوان سے منظور کرایا۔
انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت میں عوام سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ آج ہونے والے فیصلوں کے اثرات ہماری آئندہ نسلوں کو بھگتنے ہونگے۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ محکمہ صحت اور تعلیم میں ہونیوالی تعیناتیوں میں بے ضابطگیوں نے صوبائی حکومت کی شفافیت اور گورنرنس کے دعوؤں کی کلی کھول دی ہے تعیناتیوں میں ان لوگوں کو نوازا گیا ہے جنہوں نے درخواست تک جمع نہیں کرائے خدشہ ہے۔
آئندہ کچھ دونوں میں واسا، زراعت، ایکسائز میں ہونے والی بھرتیوں میں بھی یہی عمل دوبارہ دورایاجائے کیونکہ محکمہ صحت، تعلیم، لیویز، پولیس میں ہونے والی بھرتیاں عوام کے سامنے ہیں ڈی جی لیویز کی عہدے سے برطرفی بھی اسی کی ایک کھڑی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزراء کے احکامات پر عمل نہ کرنے والے افسران کا تبادلہ کیاجارہاہے موجودہ دور حکومت میں ایک ہزار سے زائد افسران کا تبادلہ کیاگیا ہے اگر صورتحال یہی رہی تو پھر محکموں میں کام کون کریگا۔
انہوں نے کہاکہ صوبے میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ اخبارات کی حب الوطنی عوام سے نہیں ڈی جی پی آر سے ہے انہیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔
نیشنل کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام ماورائے آئین ہے وفاقی حکومت کو اسے بنانے کا اختیار حاصل نہیں صوبے میں 2 اتھارٹیز پہلے سے موجود ہیں انہوں نے کہا کہ گوادر کے ماسٹر پلان سے متعلق غفلت برتی جارہی ہے صوے میں ترقیاتی عمل کو روک کر حکومت مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ انتظامی کرپشن کررہی ہے جو افسران ان کی بات نہیں مانتے انہیں تبدیل کردیاجاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی اکثریت نے ہمیں بطور اپنا نمائندہ منتخب کیا ہے تاکہ ہم ان کے مسائل حل کریں تاہم حکومت غیرمنتخب لوگوں کو نوازکرکے افسران کے ذریعے حلقوں میں حالات کو خراب کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ حکومتوں نے بلوچستان کے سیاسی، سماجی، معاشی اور قبائلی ساخت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے اپوزیشن کو کبھی دیوار سے نہیں لگایاگیا موجودہ حکومت نے صوبے کے کلچر کو مکمل طورپر تباہ وبرباد کیا ہے انہوں نے کہاکہ عوام کو حکومت تک رسائی حاصل نہیں جس طرح کے فیصلے صوبہ سے متعلق کئے جارہے ہیں۔
اس سے صوبے مزید اندھیروں کی طرف جائیگا،انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں 2لاکھ 80ہزار افراد منشیات کا شکار ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کا استعمال،چوری چکاری سمیت جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ پشتونخوامیپ کے رکن اسمبلی نصراللہ زیر نے کہا کہ محکمہ تعلیم کی مشتہر ہونے والی آسامیوں کے لئے چارہزار سے زائد لوگوں نے درخواستیں جمع کرائی تھیں محکمہ میں 266 لوگوں کو تعینات کیاگیا جن میں ایسے لوگ شامل ہیں جنہوں نے درخواست تک جمع نہیں کرائے تھے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ نائب قاصد کی پوسٹ پر تعیناتی کے لئے پانچ لاکھ روپے لئے گئے ہیں خاکروب کی 8پوسٹوں پر ایک اقلیت جبکہ باقی مسلمان تعینات کئے گئے ہیں۔
اسی طرح چوکیدار کی دوپوسٹوں پر خواتین کو تعینات کیاگیا ہے، کوئٹہ میں دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد کو تعینات کیاگیا ہے جس سے لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا ہونگے یہاں لوگوں نے ہزاروں فٹ زمین سکولوں کے لئے عطیہ کی ہیں جن کا حق بنتاہے کہ تعیناتیوں میں انہیں اولیت دی جائے حکومت نے تعیناتیوں میں عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے انہوں نے کہا کہ معاملہ کی شفاف تحقیقات کے لئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے جو معاملہ کی تحقیقات کرکے اسمبلی کو اپنی رپورٹ پیش کریں۔
انہوں نے کہاکہ ذمہ داران کا تعین اورمعاملہ کی تحقیقات ہونے تک جاری آرڈر کو منسوخ کیاجائے انہوں نے گذشتہ روز دکی میں مظاہرین پر اسسٹنٹ کمشنر کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے ایوان میں یقین دہانی کرائی تھی کہ انہوں نے رپورٹ طلب کی ہے مگر اب تک معاملہ نہ تو اسسٹنٹ کمشنر کو معطل کیاگیا ہے نہ معاملہ کی تحقیقات سے متعلق کوئی رپورٹ سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں شامل وزراء کو اپنے محکموں پر کوئی عبور حاصل نہیں حکومتی جماعت کے لوگ زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں۔