|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2019

گزشتہ تین دنوں کے دوران ضلع خضدار میں تین ٹریفک حادثات ہوئے،پہلا حادثہ وڈھ کے مقام پر ہوا جس میں ایک خاندان کے دو خواتین جاں بحق ہو گئیں،دوسرا حادثہ خضدار کینٹ کے قریب پیش آیا جہاں باپ اور بیٹا جان سے چلے گئے جبکہ تیسرا حادثہ آج جیوا کراس کے مقام پر ہوا جہاں تقریباً پانچ افراد جن میں میاں بیوی اور ان کا بیٹا شامل ہیں موت کی وادی میں چلے گئے۔

چونکہ آج جیواء کراس پر جو حادثہ ہوا اس میں ہلاکتو ں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور زخمیوں کی تعداد بھی تین درجن کے قریب تھی اس لئے زیادہ توجہ اس پر رہی۔ حادثہ کی خبر ملتے ہی ڈپٹی کمشنر خضدار میجر محمد الیاس کبزئی،اسسٹنٹ کمشنر خضدار نعیم عمرانی ہسپتال پہنچے،ڈپٹی کمشنر کی جانب سے ایمرجنسی نافذکر دی گئی جبکہ انجمن تاجران خضدار کے صدر حافظ حمید اللہ مینگل،الغنی ویلفیئر ٹرسٹ کے رضا کار بھی ہسپتال پہنچ گئے،مختلف سماجی تنظیموں کے کارکنان بھی رضاکارانہ خدمات انجام دینے ہسپتال میں موجود رہے۔

میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ٹیچنگ ہسپتال خضدار ڈاکٹر نصیر احمد آخوند کی نگرانی میں ڈاکٹر سرجن ارشاد احمد زہری،ڈاکٹر شاجہاں بلوچ اور دیگر ڈاکٹر صاحبان بھی خدمات سر انجام دئیے،الغنی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے مریضوں کے لئے ادویات،مشروبات کا بھی بندوبست ہوا جبکہ کفن بھی مہیا کر دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر خضدار میجر (ر) محمد الیاس کبزئی نے اپنی نگرانی میں تمام زخمیوں کو ان کے ورثاء کی خواہش پر کوئٹہ اور کراچی منتقل کرنے کا بندوبست کرایا جبکہ نعشیں بھی پہنچانے میں مدد فراہم کی۔

یہ پورا آپریشن صبح نو بجے سے سہ پہر تین بجے تک جاری رہی جس میں انجمن تاجران خضدار کے صدر حافظ حمید اللہ اور ان کے ساتھی صبح نو سے تین بجے تک ہسپتال میں موجود رہے اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کی خدمات کاا جرء دے، یہ سب ہمارے علاقے کے سفیر ہیں زخمیوں میں خضدار کے علاوہ شہید سکندر آباد اور کراچی کے لوگ شامل تھے ہمارے ان سفیروں کی خدمات یقینا کراچی اور سوراب تک پہنچ گئیں یہ ہماری نمائندگی خود کرینگے کہ خضدار میں جب کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو وہ اپنی تمام اختلافات و معاملات کو ایک طرف رکھ کر زخمیوں کی مدد و خدمت کرتے ہیں یہ چند الفاظ ان لوگوں کے لئے تھے جنہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز میں نہ صرف زخمیوں کی خدمت کی بلکہ ہر طرح سے ان کے ساتھ تعاو ن بھی کیا َاب آتے ہیں۔

ٹریفک حادثات کی وجوہات کی جانب کہ کیوں چمن کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر ٹریفک حادثات کے تسلسل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ میری نظر میں اس کے چار مختلف وجوہات ہیں پہلا قومی شاہراہ پر ٹریفک کا دباؤ،،دوسرا ڈرائیوروں کی اپنی بے حسی،، تیسرا موٹروے پولیس کی عدم تعیناتی اور چوتھا قومی شاہراہ کا سنگل ٹریک ہونا،،،،، اور پانچوا ں ایچ ڈی سرچ لائٹس،،،،،ہو سکتا ہے ان حادثات کے اور بھی وجوہات ہوں مگر میری نظر میں یہ چار وجوہات سب سے اہم ہیں جب سے اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے خضدار،قلات،شہید سکندر آباد سمیت جہاں جہاں سے کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ گزرتی ہے۔

ان علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے گوادر ٹو سوراب،،، خضدار ٹو رتو ڈیرو قومی شاہرائیں تعمیر ہوئی ہیں تب سے بیچ میں آنے والی قومی شاہراہ یعنی کراچی ٹو کوئٹہ پر ٹریفک کا دباؤ مزید بڑھ گیا ہے ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی گاڑیاں روزانہ یہاں سے گزرتی ہیں مقامی ٹریفک اس کے علاوہ ہے ظاہر ہے جب ٹریفک کا دباؤ زیادہ ہوگا اور ٹریک سنگل ہو گی اس صورتحال میں کسی ایک کی لاپروائی المناک حاد ثہ کا سبب بن سکتا ہے اور جیواء کراس پر یہی ہوا۔

اورٹیک کی کوشش اور دونوں گاڑیوں کی ڈرائیوروں کی بے حسی کی وجہ سے دونوں تیز رفتار گاڑیاں آمنے سامنے سے ٹکرا گئیں اور اس طرح کئی خاندانوں کے گھر وں کے چراغ گل ہو گئے اور کچھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معذور ہوگئے۔ ایک جانب ٹریفک کا دباؤ،دوسری جانب تیز رفتاری اور تیز رفتاری کو کنٹرول کرنے والے موٹر وے پولیس کی عدم تعیناتی اور نا تجربہ کار ڈرائیورٹریفک حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ سب سے پہلے مسافر گاڑیاں چاہے وہ مسافر کوچ ہوں یا ویگن،غرض ان تمام کے ڈرائیوروں کے لئے موٹروے پولیس کی ڈرائیونگ لائسنس کو لازمی قرار دیا جائے موٹروے پولیس وہ واحد پولیس ہے جس کا لائسنس حاصل کرنے کے لئے سفارش کی نہیں بلکہ محنت کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ لائسنس صرف ٹرائیل کی بنیاد پر نہیں ملتی ا س کے لئے باقاعدہ کلاسیں لینا پڑتی ہیں جس میں ٹریفک کے تمام قوانین کے متعلق بتایا،سکھایا اور پڑھایا جاتا ہے۔

دوسری بات چھوٹی گاڑیوں کے لئے الگ اور بڑی گاڑیوں کے لئے الگ لائسنس اس شرط پر جاری کئے جائیں کہ چھوٹی گاڑی والے ڈرائیور حضرات بڑی گاڑیاں اور بڑی گاڑیاں چلانے والے ڈرائیور حضرات چھوٹی گاڑیاں نہیں چلا سکتیں۔ اسکے علاوہ شہید سکند ر آباد سے لیکر بیلہ تک اس سیکشن پر فوراً موٹروے پولیس تعینات کی جائے،دو سے زاہد ٹریفک حادثات کرنے والے ڈرائیوروں کو ریڈ مارکس دئیے جائیں،ان کا لائسنس کینسل کیا جائے۔

بد قسمتی کہیں یا کہ حالات کی ستم ظریفی بلوچستان میں کوئی بھی ہائی وے ایسا نہیں جو ڈبل ہو،ہائی وے کیا یہاں موٹر وے بھی سنگل ہے۔رتو ڈیرو ٹو گوادر یہ دنیا کا واحد موٹروے ہے جو سنگل ہے۔بحرحال کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ڈبل کیا جائے،تیز رفتاری کو کنٹرول کرنے کے لئے سخت قوانین بنائے جائیں اگر بنائے گئے ہیں تو ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

قومی شاہراہ پر کئی سو کلو میٹر تک ٹراما سینٹرز نہیں ہیں ٹراما سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے میں دیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے یہ تمام وہ بنیادی مسائل ہیں ان کو حل کر کے ٹریفک حادثات پر کنٹرو ل کیا جا سکتا ہے،،،کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر ہوانے والے ٹریفک حادثات کی وجوہات میں نے موٹروے پولیس کے ایک ذمہ دارآفسر جو کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ پر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ روڈ سیفٹی کی بنیاد چار چیزوں پر ہے جس پر پوری دنیا عمل کرتی ہے۔

سوائے ہمارے۔ نمبر1۔روڈ انجنیئرنگ معیاری ہو جس پر روڈ سائن نصب ہو، روڈ مارکنگ جتنی روڈ فرنیچرز وغیرہ۔نمبر 2۔ وہیکل انجینئرنگ کیونکہ جب روڈ معیاری ہوگا تو اس پر گاڑیاں بھی مکمل فٹ یعنی ٹائر سیٹ،بیلٹ،ہیئربیگ، انجن،ہر اک چیز معیاری اور مکمل فٹ ہو۔ نمبر3۔روڈ سیفٹی ایجوکیشن آگاہی، بچوں کو اسکول میں والدین کے لیے روڈ سیفٹی سیمینار الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیاں انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کو روڈسیفٹی آگاہی ان سب کے بعد۔نمبر4۔معیاری ڈرائیونگ،اس کے لیے سب سے پہلے ڈرائیورز کو روڈسیفٹی تھیوری مکمل پڑاھایاجائے اور پریکٹیکل کرواکے میڈیکل ٹیسٹ کے بعد ڈرائیونگ لائسنس دی جاہے۔

مجھے 17 سال ہورہا ہے روڈ پر ڈیوٹی کرتے ہوئے، 100 میں سے 3فیصدکو چھوڑ کے 97فیصد کو تو ڈرائیونگ کی ABC کا بھی پتا نہیں اور نہ آج تک کسی مسافر کو میں نے دیکھاکسی ویگن یا کوچ سے اتر کے کہا کہ یہ ڈرائیور تیز رفتاری کر رہا ہے یا موبائل فون پر بات کر رہا ہیے غلط اورٹیکنگ کر رہا ہے۔اگر تیز رفتاری اور قوانین کی خلاف وزری پر موٹروے پولیس کسی مسافر کوچ،ویگن کو روکتی ہے مسافربھی قانون کا ساتھ دینے کے بجائے ڈرائیور کی طرف داری کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس ایسے معاملات میں قانون کا ساتھ دیں ڈرائیوروں کی طرف داری کی بجائے موٹروے پولیس کو حقیقت بتائیں، تا کہ اس ڈرائیور کے خلاف کاروائی کر کے بس میں سفر کرنے والے تمام مسافروں کی جان کی حفاظت کی جا سکے۔