|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2019

پچھلے چند سالوں سے پاکستان میں ”کلچر ڈے“ کے نام سے ایک نئے رجحان کا آغاز ہوا ہے جس میں مختلف قومیتوں سے منسوب قدیم طرز کے روایتی لباس، خوراک، ٹوپیاں، اجرک، جوتوں اور خیموں کی نمائش کی جاتی ہے اور ان پرثقافت کے نام پر فخر کی ترغیب دی جاتی ہے۔

تمام تر قوم پرست پارٹیوں کی قیادت بھی اس عمل میں پیش پیش ہوتی ہے۔ اس دوران کلچر کے معنی اور اس کی روح پر ہونے والی بحث اور اپنی قوم کی پسماندگی، محرومی اور غربت کی وجوہات پر سوالات کو انتہائی عیاری سے دبا دیا جاتا ہے۔کیا اس طرح ثقافت کو کسی مخصوص دن تک محدود کرکے اسے منانا کوئی عقلی جواز رکھتا ہے اور کیا اسے منانے کی ضرورت بھی ہے؟

ثقافت کیا ہے؟ ایک ثقافت یافتہ (Cultured life) زندگی کیا ہے؟سادہ الفاظ میں ثقافت وہ سب کچھ ہے جو نسل انسان نے اپنی پوری تاریخ میں تخلیق کی ہے۔ اس میں فطرت میں پائی جانے والی چیزوں کے علاوہ تمام تر مادی اور روحانی حاصلات شامل ہیں۔ ثقافت کا آغاز اس وقت ہوا جب انسان نے اوزار بنانا سیکھا اور اس طرح حیوانی دنیا سے الگ ہوا۔

یہ اوزار ہی تھے جس کے ذریعے انسان نے فطرت کی منہ زور قوتوں کو اپنے تابع کرنے کے لیے استعمال کیا اور جس نے انسان اور فطرت کے بیچ ایک ایسی حفاظتی تہہ کا کام کیا جس نے انسان کو فطرت کی ننگی قوتوں اور آفتوں سے محفوظ رکھا۔ گویا انسان نے فطرت میں پائی جانے والی اشیا ء سے فطرت کے متوازی ایک اور فطرت کی تخلیق کی جسے ہم دوسری فطرت (Second Nature)کہتے ہیں۔ یہی دراصل ثقافت (کلچر)ہے۔ اس میں نسل انساں کے پرکھوں کی تمام تر حاصلات بشمول اوزار، مشین، عمارات وغیرہ شامل ہیں۔ گویا فطرت کے ساتھ انسان کی کشمکش کے دوران کلچر جنم لیتا ہے اور فطرت کے مقابلے میں انسان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ثقافت کا ایک اور اہم پہلو انسانی شعور میں موجود وہ علم، صلاحیتیں، رسوم و رواج اور ہنر ہیں جو انسان نے اپنے سابقہ مادی ثقافت کی بنیاد پر حاصل کی ہیں اور اس میں مزید اضافہ کرتا رہتا ہے۔

فطرت کے ساتھ اسی کشمکش کے دوران پیداواری قوتوں کی ترقی کے ایک خاص مرحلے پر انسانی سماج طبقات میں تقسیم ہوا۔ سماج کی طبقاتی تقسیم نے ایک نئے معاشی ڈھانچے، سماجی تنظیم اور بالائی ڈھانچے کی تشکیل کی۔ مارکسی فلسفے کی رو سے ذرائع پیداوار کی ملکیت ہی سے طبقے کا تعین ہوتا ہے۔ لہٰذا ذرائع پیداوار کی ملکیت کی حامل طبقہ حکمران طبقہ بنا اور اس کی ملکیت سے محروم، محنت کش طبقہ۔ یہی طبقاتی تقسیم سماج کے ہر شعبے پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ کلچر یا ثقافت بھی حکمران طبقے کی ملکیت بن جاتی ہے۔

وہ تمام ثقافتی حاصلات کو اپنے طبقے کے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے اور اس دوران ایک نئی ثقافت کو جنم دیتا ہے۔ ہر طبقاتی سماج نے اپنے لیے اپنی روح کے مطابق ایک الگ ثقافت تخلیق کی۔ غلام داری، جاگیر داری اور سرمایہ داری نے الگ الگ ثقافتوں کو جنم دیا۔ مارکس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کسی بھی طبقاتی سماج میں حاوی خیالات و نظریات حکمران طبقات کے ہوتے ہیں۔ یہی بات ثقافت پر بھی منطبق ہوتی ہے یعنی طبقاتی سماج میں حاوی ثقافت حکمران طبقے کی ثقافت ہوتی ہے۔

ثقافت کے مادی پہلو کے ساتھ ساتھ روحانی پہلو بھی ہوتا ہے۔ مادی ثقافت کی ارتقاء کے ساتھ ادب، آرٹ، سماجی علوم، اخلاقیات، سائنس اور علوم کے دیگر شعبے بھی پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن طبقاتی سماج میں یہ روحانی پہلو بھی حکمران طبقے کی ملکیت میں ہوتے ہیں جنہیں حکمران طبقات اپنی حکمرانی اور نظام کے استحکام اور اسے جواز فراہم کرنے کے لیے ایک مخصوص شکل میں پیش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فطری سائنس کو بھی بگاڑ کر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایسے نظریات کو سائنس کا لبادہ پہنا کر اپنی حاکمیت اور جبر کو فطری یا سائنسی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

مثلاً امریکہ میں سیاہ فام افراد کو فطری طور پر مجرم ثابت کرنے کے لیے مجرم جین (Criminal gene)کا نظریہ پیش کیا گیا جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سیاہ فام افراد کے کروموسوم میں ایک ”مجرم جین“ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ جینیاتی طور پر جرائم اور تشدد کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ لیکن فطری سائنس کو اس انداز میں استعمال کرنے کی ایک حد ہوتی ہے کیونکہ جدید سے جدید ٹیکنالوجی اور مشینری متعارف کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے جس میں کسی طرح کی دھوکہ دہی اور واردات سے پیشرفت ممکن ہی نہیں ہے۔

لیکن سماجی علوم کے شعبے میں حکمران طبقات کھل کر واردات کرتے ہیں۔ درسگاہوں میں پڑھائی جانے والی سوشل سائنسز کا مقصد ہی طالب علموں اور بالعموم عام افراد کو معاشرے کے بارے میں سائنسی سوچ سے محروم کرکے انہیں ذہنی طور پر اپاہج کرنا ہے۔ تمام تر سماجی مظاہر کو ان کے معروضی اور تاریخی پس منظر سے کاٹ دیا جاتا ہے۔سماج کی طبقاتی تقسیم کو ایک فطری تقسیم اور ریاست کو ازلی اور ابدی ادارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو شروع دن سے موجود تھا۔

سماج کے تاریخی ارتقا کو ایک سائنسی انداز میں پیش کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور سماجی حرکت کو کسی طرح کے اصول و قوانین سے آزاد قرار دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مارکسی نظریات، جو فطرت، انسانی سماج اور انسانی شعور کی حرکت کے عمومی قوانین ہیں، کو ”غیر سائنسی“ اور ”غیر فطری“ گردانا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے پچھلے تین سو سالوں میں اپنی ارتقا ء کے دوران اپنی ایک خاص ثقافت تشکیل دی ہے۔

مادی حوالے سے یہ ثقافت جدید مشینری، ٹیکنالوجی، جدید انفراسٹرکچر اور صنعتی انقلاب اور بڑے پیمانے پر پیداوار اور پیداواری قوتوں کی طوفان خیز ترقی پر مشتمل ہے جس کی بنیاد کاروبار، لین دین اور حصول منافع ہے۔ اس مادی ترقی نے اسی حساب سے ایک روحانی ثقافت کو جنم دیا ہے۔ لیکن جس طرح تمام تر مادی ترقی کی حاصلات ایک طبقے کی ملکیت ہوتی ہے اسی طرح ثقافت کے شعوری اور روحانی شعبے بھی ایک اقلیتی طبقے کی ملکیت ہوتے ہیں۔

لیکن اپنے طبقے کے مفادات اور حاکمیت کو مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے مذہب کو ریاست سے الگ کیا، سماج کو جاگیردارانہ جبر اور پسماندگی سے نکالا، عورت کو قبائلی اور جاگیردارانہ بندشوں سے آزاد کیا اور ظاہری طور پر ہی سہی ایک جنسی برابری قائم کی، جدید تعلیمی نظام متعارف کروایا، دلیل اور عقلیت کو آگے بڑھایا، فرد کی انفرادی آزادی کی بات کی۔بلاشبہ یہ سب کام بورژوا طبقے نے ”قوم“ کے نام پر انجام دیئے لیکن پس پردہ ان سب اقدامات کی قوت محرکہ ان کے اپنے طبقاتی مفادات تھے۔

اس کے باوجود مغرب کے بورژوا طبقے نے ماضی کے تمام تر نظاموں کے مقابلے میں کم سے کم ترقی یافتہ ممالک کی حد تک ہی سہی ایک جدید اور ترقی یافتہ ثقافت کو جنم دیا ہے۔ سرمایہ داری کی معاشی ترقی اور پیشرفت نے سماج کو آگے بڑھایا جس نے وہ معاشی آسودگی پیدا کی جس سے یہ بورژوا ثقافت پورے سماج کی ثقافت بنی۔ آج ترقی یافتہ بورژوا ممالک میں بلاشبہ کرہ ارض کی جدید ترین مادی اور روحانی ثقافت وجود رکھتی ہے۔

لوگوں میں اچھے ادب، آرٹ، فلم بینی، تھیٹر، ڈرامہ اور اچھی موسیقی کے لیے ایک ذوق پایا جاتا ہے۔ کتابیں پڑھنے کا رجحان ہے۔ علمی اور ادبی بحث کا ماحول ہوتا ہے۔ الغرض یہ سماج جدید ٹیکنالوجی، صنعت اور انفراسٹرکچر سے بہرہ مند ہیں اور اس کے روحانی پہلوؤں سے آراستہ ہیں یعنی ایک ثقافت یافتہ (Cultured) معاشرہ ہے۔

لیکن پاکستان جیسے پسماندہ نوآبادیاتی ممالک میں بورژوا طبقہ کسی تاریخی ارتقا اور انقلابات کے نتیجے میں سماج پر براجمان نہیں ہوئے بلکہ اس طبقے کو برطانوی سامراج نے یہاں کے خام مال کی لوٹ مار کے لیے تخلیق کیا تھا۔ وہ سامراج کے کمیشن ایجنٹ اور دلال تھے۔ گماشتگی اور دلالی ان کے خمیر میں تھی اور ہے۔

مقامی اشرافیہ سے تشکیل شدہ یہ بوروژوا طبقہ جب یہاں حکمران طبقے کے طور پر براجمان ہوا تو اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ یہاں پر کسی طرح کی جدیدیت متعارف کرواسکے کیونکہ یہ طبقہ تکنیکی اور معاشی طور پر مغرب سے بہت پسماندہ تھا جو جاگیرداری اور سرمایہ داری کا ملغوبہ تھا۔ پاکستان جیسے ممالک کی بورژوازی نہ صرف تکنیکی اور معاشی لحاظ سے کھوکھلے ہیں بلکہ روحانی ثقافت کے حوالے سے بھی مکمل طور پر کھوکھلے اور اپنے عادت و اطوار اور حرکتوں سے کسی گزری ہوئی صدی کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہاں کے بورژوا طبقات کا تاریخی ارتقاء ہی نامکمل ہے۔ جس کی وجہ سے وہ یہاں بورژوا انقلاب برپا ہی نہ کرسکے۔ تکنیکی صنعتی پسماندگی اور سامراجی لوٹ مار کی وجہ سے وہ اتنا قدر زائد پیدا ہی نہ کرسکے جو ان کی شرح منافع کو قائم رکھ سکے۔ نتیجتاً وہ بجلی اور گیس بھی چوری کرتے اور محنت کش طبقات کا بدترین استحصال بھی کرتے ہیں۔ چور بازاری، دھوکہ دہی، ملاوٹ اور فراڈ یہاں کے بورژوا طبقات اور کاروباریوں کی فطرت میں موجود ہے۔

اس لیے معاشی ترقی اور خوشحالی ناپید ہے۔ حکمرانوں کی یہی خصلتیں پورے سماج میں سرایت کر گئی ہیں کیونکہ ثقافت کی حرکت حکمرانوں سے عام لوگوں کی طرف ہوتی ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اگر کاروبار میں کسی حد تک ”ایمان داری“ برتی جاتی ہے تو اس کی وجہ بھی ان کی معاشی پیشرفتگی اور قدر زائد کی بہتات ہے نہ کہ ان کی حسن نیت اور مجرد اخلاقی معیارات۔ جیساکہ ٹراٹسکی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ”فرانس میں وہ ہماری نسبت زیادہ ایمانداری سے کاروبار کرتے ہیں اور گاہک پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

معاشی خوشحالی کی ایک سطح پر پہنچنے کے بعد بورژوازی ] سرمایے کے[ بنیادی اجتماع (Primary Accumulation) کے دھوکہ دہی پر مبنی طور طریقوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ اس کی اخلاقی نہیں بلکہ مادی وجوہات ہیں: معمولی دھوکہ دہی اور فراڈ کسی کاروبار کی ساکھ کو خراب کردیتا ہے اور اس کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے“۔

اسی وجہ سے یہاں کبھی جدید ثقافت پنپ ہی نہ سکی اور نہ اتنی معاشی ترقی اور خوشحالی آسکی جس سے لوگوں کو جدید تکنیک، صنعت اور انفراسٹرکچر تک رسائی حاصل ہوسکے۔یہ یہاں کے حکمرانوں کی تاریخی نا اہلی ہے کہ وہ یہاں کی عوام کو ترقی یافتہ زندگی فراہم نہیں کرسکے۔ جس طرح سماج معاشی اور تکنیکی طور پر کھوکھلا ہے اسی طرح روحانی طور پر بھی کھوکھلا ہے۔ ادب، آرٹ، فنون لطیفہ اور موسیقی کے لیے لوگوں میں ذوق ہی ناپید ہے۔

”کلچر ڈے“ منائے جانے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہاں جدید کلچر ناپید ہے۔ جن لباسوں کو تیز ترین معاشی اور تکنیکی ترقی کے نتیجے میں تاریخ کے میوزیم میں ہونا چاہیے ان پر فخر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ آج کے عہد میں جب جدید فن تعمیر کے ذریعے لوگوں کے لیے پر آسائش مکانات بنائے جاسکتے ہیں، لوگوں کو ثقافت کے نام پر خیموں میں رہنے پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے۔


سوشلزم کا بنیادی مقصد ہی ایک ثقافتی انقلاب برپا کرنا اورسماج کی ثقافتی تعمیر نو ہے۔ جدید صنعت، تکنیک اور ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت سے قومی تحویل میں لے کر معاشی انقلاب برپا کرکے پورے سماج کو ثقافت تک رسائی دینا ہے۔ اس معاشی ترقی اور خوشحالی سے وہ مواقع پیدا ہوں گے جس سے عام لوگوں کو بھی روحانی ثقافت کے پہلوؤں زبان، ادب، آرٹ، فلم، تھیٹر، موسیقی، سائنس، سماجیات، معاشیات وغیرہ تک پہنچ ہوگی۔ انسانی دانش اور احساسات اپنی انتہاؤں کو چھوئے گی۔ اس ثقافتی انقلاب کے ذریعے انسان کی فطرت کے ساتھ دیرینہ کشمکش میں طاقت مزید زیادہ ہوگی۔ تب جا کر اس سماج کے لوگوں کی زندگیاں صحیح معنوں میں ایک ثقافت یافتہ زندگی(Cultured Life)ہوگی۔