|

وقتِ اشاعت :   October 11 – 2019

یہ میرا پہلا غیر ملکی دورہ تھا جب میں پاکستان کے شہر کوئٹہ سے ائیرپورٹ کے لئے نکلا تو چائنا کے حوالے سے بے شمار تصورات دماغ میں موجود تھے کراچی ائیرپورٹ پہنچنے کے بعد بلوچستان اکنامک فورم کے نمائندے نے ہمارا استقبال کیا تو ہماری بس کراچی کی مختلف شاہراوں سے ہوتی ہوئی کراچی میں چینی قونصل جنرل پر جا کررکی۔

سیکورٹی چیکنگ کے بعد ہماری بس کو اندر جانے کی اجازت ملی تو ایک خوشگوار احساس کے ساتھ ہمارا شاندار استقبال کیا گیا۔ قونصلیٹ کے اندر جانے پر چائنا کے قونصل جنرل مسٹر وانگ یو پہلے سے ہی ہمارے منتظر تھے اور مشکورانہ انداز میں ہمیں گلے لگایا تو احساس ہوا کہ پاک چین دوستی صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے جو دونوں ملکوں کے باسیوں کی روح میں سرایت کر چکا ہے ملاقات کے آغاز میں ہی پاکستان اور چائنا سے متعلق مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا تو یہ احسا س ہو ا کہ ہم جہاں جا رہے ہیں وہاں پاکستان کی کتنی زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ میٹنگ ختم ہوئی تو مسٹر وانگ یو نے ہمیں بس تک آ کر رخصت کیا۔

چینی قونصل خانے سے نکلنے کے بعد اب ہمارا رخ ائیرپورٹ کی جانب تھا۔ تقریباً ساڑھے 6گھنٹے کی تھکا دینے والی جہاز کے سفر کے بعد بیجنگ ائیرپورٹ پہنچی تو فضاء میں ہی نظر بلند و بالا عمارتوں پر پڑی جس نے ایک حیران کن احساس دلایا۔ یہاں سے میری زندگی کے ان خوبصورت لمحات کا آغاز ہوا چاہتا تھا جو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ عموماً دوسرے ممالک کا سفر کرنے والوں سے سنا تھا کہ دیار غیر میں اپنے ملک کی بہت یاد آتی ہے مگر جب دیار غیر، غیر ہی نہ لگے تو یاد کیسے آ سکتی ہے۔

پاکستان اور چین کی دوستی خلوص کی بنیاد پر استوار ہے یہی وجہ ہے کہ اپنو ں سے اتنی دو ر آ کر بھی اپنائیت کا احساس چین میں بھی تواتر کے ساتھ ہوتا رہا۔ہمیں بیجنگ ائیرپورٹ پر ہی ہمارے گائیڈ مسٹر پیٹر سے ملاقات ہوئی۔زبان، تہذیب اور مذہب مختلف ہونے کے باوجود مسٹر پیٹر اور ہمارے درمیان بڑے مخلصانہ روابط قائم ہوئے اور ان کے ساتھ گزارا ہوا وقت یادوں کے خوشگوار اوراق پر نقش ہوتا چلا گیا۔ مسٹر پیٹر نے ہمیں منسٹری آف فارن افیئرز کے نمائندہ مسٹر سون سے بھی ملایا تو میں نے اپنے دوست سے سرگوشی میں کہا کہ سون کی گفتگو مون سون کی ہوا جیسی محسوس ہو رہی ہے جس میں مٹی کی بھینی بھینی خوشبو اور خنکی تازگی کا احساس دلا رہی تھی۔

بس میں بیٹھنے کے بعد ہمیں ہوٹل کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں صاف ستھرے روڑ،بلند و بالا عمارتیں اور ترقی دیکھ کر تو جیسے دماغ سن ہو گیا۔ ساتھی بار بار اعتراف کر رہے تھے کہ چائنا کی اتنے کم عرصے میں ترقی کی سب سے بڑی وجہ ان کی سچائی، محنت اور ملک سے محبت ہے۔5سٹار ہوٹل میں رہائش دی گئی اوربعد میں چائنیز ریسٹورنٹ لے جایا گیا جہاں چائنیز کے مزیدار کھانے پیش کئے گئے اور وقت ضائع کئے بغیر ہمیں ٹیمپل آف ہیون کے مقام پر لے جایا گیا۔

اس تاریخی اور مذہبی مقام سے متعلق آگاہ گیا گیا اور اس کا دورہ کرایا گیا۔دن کے اختتام سے پہلے بازار میں خریداری کی اور کھانے کے بعد آرام کرنے کا موقع ملا۔ ٹور کے دوسرے روز چائنا اکنامک نیٹ اخبار کے آفس کا دورہ کیا،اپنے چائنیز صحافی دوستوں سے ملاقات ہوئی تو اور بھی زیادہ اپنائیت کا احساس ہوا۔روزنامہ چائنا اکنامک اور چائنا اکنامک نیٹ سے متعلق بریفنک دی گئی اور دو طرفہ صحافت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس شاندار میٹنگ کے بعد ہماری اگلی منزل چین کی سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی ایم ای سی تھی۔ میں آپ کو بتاؤں کہ ایم سی سی پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے چاغی میں سیندک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے۔ ایم سی سی کے اعلیٰ عہدے داروں نے سیندک پروجیکٹ سمیت دیگر پروجیکٹس پر بریفنگ دی اور ہمارے اعزاز میں پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اگلی صبح square tiananmen کا دورہ کیا اور گائیڈ پیٹر نے انتہائی اطمینان اور خوبصورت اندار میں اس مقام کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا۔اس مقام پر اپنے چینی دوستوں کے ساتھ خوب تصاویر بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان شاندار لمحات کو محفوظ کرلیا۔

اب ہماری اگلی منزل تھی چائنا پاور انٹر نیشنل ہولڈننگ لمٹیڈ(Ltd Holding International Power China) میٹنگ کے دوران دیگرامور کے ساتھ ساتھ حب کول پاورپلانٹ ( Plant Power Coal Hub) پر جامع بریفنگ دی گئی اور کھانے کی میز پر کمپنی کے دیگر ساتھیوں سے تبادلہ خیال ہوا۔دن کا اختتام ہوا اور گلی صبح وہ مقام دیکھا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔جی ہاں بات ہو رہی ہے تقریباً 7ہزار کلو میٹر رقبے پر پھیلی دیوار چین کی،اس کی مضبوط دیواریں چائنیز کی مہارت اور بہادری کی گواہ ہیں۔

دیوار چین کے لمحات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرنے کے بعد رخ کیا ریلوے اسٹیشن کا جہاں چائنیز کی ایک اور کمال تخلیق بلٹ ٹرین ہماری منتظر تھی، ٹکٹ لینے کے بعد برق رفتاری سے چلنے والی ٹرین کا سفر اگلے شہر شنگھائی کے لئے شروع ہوا۔ راستے میں حیران کن لمحات میں ایک یہ تھا کہ فیکٹریز سے سفید دھویں نکلتے دیکھا، پوچھنے پر بتایا گیا کہ ماحول کو آلودگی سے محفوظ کرنے کے لئے فیکٹریز سے نکلنے والے دھویں کو ری سائیکل کیا گیا ہے اور اس سے خطرناک گیسز کا خاتمہ کرنے کے بعد دھویں کو فضاء میں چھوڑا جاتا ہے۔ خیر 5گھنٹے بلٹ ٹرین کا سفر طے کرنے کے بعد ہم چائنا کے شہر شنگھائی پہنچ گئے۔

ہوٹل میں کمرہ لیا اور کھانا کھانے کے بعد سکون کی نیند سو گئے۔ اگلی صبح شنگھائی شہر کا دورہ شروع ہوا، یہاں ہمارے نئے گائیڈمسٹر لیو نے ہمیں جوائن کیا اور مسٹر سون بھی ہمارے ہمراہ موجود تھے۔ مختلف تاریخی مقامات کے دورے کے بعددنیا کی دوسری بلند ترین عمارت شنگھائی ٹاور پہنچے 118منزلہ عمارت کے اندر جانے کے بعددنیا کی تیز ترین لفٹ میں داخل ہوئے جس نے صرف ایک منٹ میں ٹاور کی سب سے اونچی منزل یعنی 188منزل تک پہنچا دیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے شنگھائی شہر صاف اور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو اس مقام پر جانے کی صلاح ضرور دونگا۔

میرے مطابق اگرآپ شنگھائی میں موجود ہیں اور شنگھائی ٹاور نہیں گئے تو آپ نے کچھ نہیں دیکھا۔یہاں شنگھائی میں بھی مختلف مقامات کا دورے کرنے کے بعد مارکیٹ میں خریداری کی گئی اور شام کی تو بات ہی کچھ اور تھی جب سمندر کنارے دیو ہیکل کروز (بحری جہاز) ہمیں سیر کروانے کا منتظر تھاجب ہم اس بحری جہاز میں داخل ہوئے تو اس کی بناوٹ میں چائنا کی ثقاقت،قدیم تہذیب ساحل سے پانی کی طرح چھلک رہی تھی۔ ابھی ہم اس بحری جہاز کی خوبصورتی کے سحر میں مبتلا تھے کہ آغاز سفر کا سائرن بجا تو ذہن یک لخت جھٹکا اور آنکھوں نے سمندر کی موجوں پر شنگھائی شہر کے دلفریب مناظر دیکھنا شروع کئے۔

یقین مانئے کہ چائنا کی ترقی میرے اندر جیلیسی کے جذبات پیدا نہ کر سکی شاید اس کی بنیادی وجہ پاک چین دوستی کا وہ مضبوط قلعہ ہے جو ہر پاکستانی کی دل میں بنا ہوا ہے اور اسی قلعے سے دشمن کے دل پرنشتر لگتے ہیں۔ اگلے دن میوزیم اور دیگر مقامات کے دورے کروائے گئے اور شنگھائی میں ہمارے آخری دن زو(ZOO) کی سیر کرنے کے بعد ائیرپورٹ کا رخ کیا اور اگلے شہر شنزن پہنچ گئے۔شنزن کو روشنیوں کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

یہاں کی روایات اور اپنائیت نے تو دل جیت لیا، شنزن میں واقع 116منزلہ دنیا کے چوتھے اونچے بلڈنگ پینگ این فائنانس سینٹر کا دورہ کیا جہاں سے شنزن شہر پاکستان اور چائنا کی دوستی کی مانند صاف و شفاف نظر آ رہا تھا۔یوں شنزن میں مزید 2دن گزارے اور مختلف مقامات کے دورے کے بعد ہم واپس بیجنگ پہنچے اب یہ وہ لمحات تھے جب ہمارے اور چائنا کی ملاقات کا ٹائم ختم ہونے کو تھا۔

یقین مانئیے یہ اس طرح کی افسردہ لمحات تھے جیسے میں اپنے گھر یعنی کوئٹہ پاکستان سے روانہ ہو رہا تھا اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ ہو رہا تھا،چائنا میں گزارے گئے وہ تمام پل آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے اور دل اداس ہو رہا تھا۔ تاہم میرے دیرینہ دوست منسٹری آف فارن افئیرز کے نمائندے مسٹر سون کا ساتھ ضرور اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ ان کے ساتھ انتہائی گہری دوستی ہو گئی۔ اور ہم چائنا ائیرلائن کے ذریعے اپنے پیارے پاکستان کے لئے روانہ ہو گئے۔ اس تمام سفر کے دوران جہاں ترقی کے وہ منازل دیکھے جو اس سے قبل آنکھوں نے براہ راست نہیں دیکھے تھے۔

صاف و شفاف سڑکیں اور آب و ہوا، سلیقے اور اپنائیت سے بھرپور عوام اور سب سے بڑی بات امن و امان اور پر سکون زندگی۔ میری دعا ہے کہ ہمارا پاکستان بھی ہمارے سب سے اچھے دوست ملک چائنا کی طرح بن جائے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے پیارے پاکستان کا شمار بھی چائنا کی طرح دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ہوگا۔ تاہم اس کے لئے ہمیں اتحاد اور اتفاق کا عملی مظاہرہ اور اپنے ملک کو ترقی کی رہ پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔