|

وقتِ اشاعت :   October 13 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں پانچ مسودہ قانون منظور کرلئے گئے بلوچستان ہاوسنگ وشہری منصوبہ بندی کا مسووہ قانون قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا امن و امان کے حوالے سے تحریک التوا پر بحث کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکی اپوزیشن کے رکن اسمبلی نے بدامنی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے قیام کامطالبہ کیا جبکہ حکومتی رکن نے امن وامان کی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ماضی کی نسبت بلوچستان میں ہونے والے بدامنی کے واقعات میں 99 فیصد کمی آئی ہے۔

ہفتے کے روز ایک گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی رکن بشریٰ رند نے بلوچستان ہاؤسنگ و شہری منصوبہ بندی کا مسودہ قانون نمبر18مصدرہ2019 پیش کیا جسے ایوان کی رائے کے بعد سپیکر نے متعلقہ اسٹیڈنگ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی اجلاس میں صوبائی وزیر سماجی بہبود میر اسد بلوچ نے بلوچستان فلاحی و عطیاتی اداروں و تنظیم کی رجسٹریشن‘ریگولیشن اور معاونت کا مسودہ قانون نمبر15مصدرہ2019ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظور ی دیدی۔

اجلاس میں صوبائی وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے بلوچستان اعصابی صحت کا مسودہ قانون نمبر4مصدرہ2019ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی اجلاس میں صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی نے بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا ترمیمی مسودہ قانون نمبر5مصدرہ2019پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طو رپر منظوری دیدی۔

صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی نے بلوچستان کے نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن ریگولیشن و فروغ کا مسودہ قانون نمبر6مصدرہ2019ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی اجلاس میں صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی نے بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈر ایجوکیشن کا مسودہ قانون نمبر7مصدرہ 2019پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی۔

اجلاس میں امن و امان سے متعلق تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرے نے کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی مجموعی صورتحال سے متعلق آج کی تحریک التواء انتہائی اہمیت کی حامل ہے تاہم ایوان میں محکمہ داخلہ کے ذمہ داران اور افسران کی عدم موجودگی باعث افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس جنوری سے اب تک بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اسٹریٹ کرائمز، ڈکیتی کی وارداتوں کے علاوہ دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔لورالائی میں ڈی آئی جی پولیس کے دفتر پر ہونے والے حملے کے خلاف احتجاج پر بیٹھے پرامن مظاہرین کے ساتھ پیش آنے والے واقعے میں ارمان لونی کی المناک شہادت ہوئی جس پر صوبائی وزراء نے وہاں جا کر یقین دہانی کرائی کہ واقعے کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کیا جائے گا تاہم وہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔

اُنہوں نے کہا کہ اسی طرح پشین، قلعہ سیف اللہ، ہرنائی، چمن، خضدار سمیت دیگر اضلاع میں ہونے والے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں جمعیت کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف، بلوچستان نیشنل پارٹی کے نواب امان اللہ زہری،کوئلہ مائنز کے ٹھیکیدار سرور خان،لیویز اہلکار رفیع اللہ سمیت متعدد لوگوں کی المناک شہادتیں ہوئیں ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ چودہ ستمبر کو ہرنائی پولیس ایریا میں 20 سے پچیس مسلح لوگ سرور خان نامی کوئلہ مائنز کے پیٹی ٹھیکیدار کو گاڑی سے اُتار کر اپنے ساتھ لے گئے اور گاڑی کو آگ لگا کر نذر آتش کردیا اور کچھ دور لے جا کر اُسے قتل کردیا آج بھی ہرنائی میں مسلح افراد نے لوگوں سے بھتہ طلب کیا ہے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ڈیویلپمنٹ سیکٹر سے زیادہ رقم امن و امان پر خرچ ہورہی ہے چالیس ارب روپے سالانہ خرچ ہورہے ہیں چمن سے کوئٹہ تک کوئی سات کے قریب چیک پوسٹیں قائم ہیں اس کے باوجود لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم کرے۔

اُنہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔حکومت کہاں جارہی ہے لوگوں کو فائرنگ کرکے زخمی کرکے ان پر ہی مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بدامنی کے واقعات سے متعلق تحقیقات کیلئے پارلیمانی اراکین پر مشتمل فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جائے تاکہ کمیٹی واقعات کی تحقیقات کرکے پتہ لگائے کہ یہ لوگ کون ہیں اوران کے سہولت کار کون ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے ایک سال میں 250 سے زائد سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ظاہر خان ناصر، کریم اتمانخیل، ملا بہرام سمیت دیگر سیاسی کارکن شامل ہیں میرے خلاف بھی تین مقدمات قائم کئے گئے ہیں جنہیں ہائیکورٹ نے ختم کیا۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم نے امن و امان سے متعلق ان کیمرہ بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا کہ پتہ چلے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کون ملوث ہے اور کن کے اشاروں پر دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، صوبائی وزیر نور محمد دمڑ نے تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ تحریک التواء میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے یقیناً وہ باعث افسوس ہیں اُنہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے ہمارے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سیکورٹی فورسز کے اہلکار، پروفیسرز، ڈاکٹرز، سیاسی کارکنوں نے قربانیاں دی ہیں اُنہوں نے کہا کہ مسلم اُمہ اور پاکستان کے دُشمن ہمارے صوبے میں قائم پرامن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ڈیڑھ سال کے دوران بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر رہی ہے گذشتہ ادوار میں وکلاء،ہزارہ برادری پولیس کیڈٹس سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد شہید کئے گئے ڈاکٹرز اور پروفیسرزکی ٹارگٹ کلنگ کی گئی صوبے کی کریم کو ختم کیا گیا بدامنی کے واقعات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بلوچستان چھوڑ کرچلے گئے اگر ان واقعات کا موجودہ حکومت میں ہونے والے واقعات کا موازنہ کیا جائے تو آج ماضی کی نسبت واقعات میں 99 فیصد کمی آئی ہے۔

نوابزادہ میر سراج خان رئیسانی کو300 افراد سمیت شہید کیا گیا گذشتہ حکومتوں میں ان واقعات میں ملوث کوئی ایک شخص بھی گرفتار نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پر جارحیت کرنے والا دُشمن ہمارے اندر بھی موجود ہے اور اس کا ہدف بلوچستان کے پرامن ماحول کو خراب کرنا ہے اُنہوں نے کہا کہ ملک اور اداروں کے خلاف بولنے اور دہشت گردی میں ملوث لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں حکومت امن و امان قائم کرنے کی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری بخوبی سرانجام دے رہی ہے۔

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام رکن سید فضل آغا نے تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والا اسلامی جمہوریہ پاکستان تمام اسلامی ممالک کا محافظ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان ہندوستان اور مغربی قوتوں کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا اُنہوں نے کہا کہ ملک کے اندر حالات جیسے بھی ہوں بیرونی دُنیا میں پاکستان کا ایک تشخص اور نام ہے اور پوری اُمت مسلمہ ہماری طرف دیکھتی ہے۔

امن و امان سے متعلق تحریک التواء پر بحث جاری تھا کہ حکومتی رکن نور محمد دمڑ نے ایوان میں کورم کی نشاندہی کی جس پر سید فضل آغا نے کہا کہ انتہائی افسوس ہے کہ جب حکومتی ارکان نے سرکاری کارروائی میں انتہائی سنجیدگی لی اور جب صوبے میں امن و امان سے متعلق بحث کا آغاز ہوا تو وہ عدم سنجیدگی کا مظاہرہ کررہے ہیں حکومتی اراکین کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ ہم نے سرکاری کارروائی میں ہمیشہ اُن کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔

جس پرڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے بعد ازاں انہوں نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس15 اکتوبر بروز منگل سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کردیا۔