کو ئٹہ: وائس چانسلر جامعہ بلوچستان ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہاہے کہ گرفتاریوں اور ویڈیوز کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں جنسی ہراسگی جیسے گندے فعل کی تحقیقات میں ایف آئی اے کیساتھ معاونت کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار پورے یونیورسٹی میں پھیلایاجائے۔سوشل میڈیا پر جاری اپنے ویڈیو پیغام میں وائس چانسلر جامعہ بلوچستان نے کہاہے کہ صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ بلوچستان پر یہاں کے لوگ پورا بھروسہ کئے ہوئے ہیں۔
اسی لئے بی ایس میں 4ہزار داخلوں کیلئے 12ہزار درخواستیں جمع ہوئی ہیں۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ ہوسکتاہے کہ بہت سے فیکٹرز اس مادر علمی کو کامیاب ہوتا نہ دیکھناچاہتے ہو اور وہ چاہتے ہو کہ یہ مادر علمی اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو جنسی ہراسگی کے حوالے سے ہماری زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہیں جو بھی اس میں ملوث ہو اسے سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے،ادارے کے امیج کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے،انہوں نے کہاکہ تحقیقات ہورہی ہونگی لیکن کسی قسم کی گرفتاریاں عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
اس کی ہم تردید کرتے ہیں۔سارے ملازمین آن ڈیوٹی ہیں ایف آئی اے بھی یہی کہہ رہی ہے کہ کسی قسم کی کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے،تحقیقات جاری ہے جس کیلئے ہم ایف آئی اے کا ہرممکن ساتھ دیں گے۔دوسری جانب جامعہ بلوچستان کے ترجمان نے گزشتہ دنوں جامعہ بلوچستان کے خلاف اور اس کے ساق کو نقصان پہنچانے والے خبروں کی مزمت کرتے ہوئے کہا ہے۔
کہ جامعہ بلوچستان اس سلسلے میں ایف آئی اے کی سائبر کرائم ونگ کو درخواست ارسال کرے گی۔ تاکہ وہ ان عناصر کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لاسکے جنہوں نے بغیرکسی تصدیق کے جامعہ کے خلاف خبر کی اشاعت کی۔ جہاں تک ایف آئی اے جامعہ کے معاملات کی تحقیقات کررہی ہے ابھی تک ان کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ہے اور نہ ہی انہوں نے کسی کو گرفتار کیا ہے۔
البتدا وہ جامعہ کے تعاون اور اشتراک عمل سے اپنی تفتیش کو یقینی بنارہے ہیں۔ جو کہ معزز عدالت کے احکامات کی روشنی میں بروئے کار لائی جارہی ہے۔ گزشتہ دنوں کے خبروں نے جہاں جامعہ کے ساق کو متاثر کیا ہے وہاں ملکی اداروں کے ساق کوبھی مجروع کیاگیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو تمام سیاسی و صحافتی حوالے سے بالا ترایک اہم معاملہ ہے۔ جہاں پر کئی لوگوں نے اپنی سیاست اور صحافت کو چمکانے کیلئے اس طرح کے اقدامات کئے ہیں۔
اس بابت جامعہ کے وائس چانسلر نے پہلے سے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے جو تمام معاملات کا جائزہ لے گی۔ جس کے داہرہ کار کو بھی وسعت دی گئی ہے۔ جو افیسران، اساتذہ، طلبہ تنظمیوں تک اپنی تحقیقات کر بروء کار لائے گی اور جو عناصر ان کے واقعات میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اور ان تمام اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کو یقینی بنائے گی جو ان معاملات کی نگرانی کررہے ہیں۔اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بیان کا بھی خیر مقدم کیا گیا ہے جنہوں نے اس معاملے میں اپنے تعفظات کا اظہار کیا ہے۔ جامعہ کے چانسلر اور صوبائی حکومت کی سرپرستی میں تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے گا۔ کیونکہ یہ صوبے کے روایات اور اہم تعلیمی ادارے کی عزت کا سوال ہے۔ اور اس حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ معزز عدالت سے بھی رجوع کرے گی تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکے
https://www.facebook.com/Bashirqta/videos/2999675096715635/