|

وقتِ اشاعت :   October 16 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی نے یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی، اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی واقعات کی تحقیقات کرکے اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کریگی۔

اجلاس میں حکومتی واپوزیشن اراکین نے طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات کو ناقابل معافی جرم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملوث عناصر نے صوبے کے اقدار پر وار کیا ہے انہیں نشان عبر ت بنایا جائے، بلوچستان اسمبلی کا ایوان انصاف فراہم کرنے والا ادارہ ہے ہر صورت صوبے کی اقدار کا تحفظ کرینگے۔ منگل کے روز اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر ثناء بلوچ نے بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں بہت بڑا مافیا ملوث ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلق جس معاشرے سے ہے وہ غریب ضرور ہے مگر اس میں آباد تمام برادر اقوام خواتین کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں انہوں نے کہا کہ جہاں بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو بلیک میل کرنے کا سکینڈل ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے شاید ہی پاکستان کی کسی اور یونیورسٹی میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہراسگی کے واقعات نے طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے طلبہ کو بلیک میل کرنے کے لئے امتحانات میں اچھے نمبر دینے،ایک ڈیپارٹمنٹ سے دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں مائیگریشن اور دیگر ہتھکنڈے استعمال کرکے خواتین و طالبات کو مجبور کیاجاتا ہے کہ وہ اپنی عزت اور روایات پر مصلحت کا شکار ہوں۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ کے کیس میں ایک خاتون کی عزت کے لئے بلوچستان میں شورش برپا ہوئی یہاں تو سینکڑوں بچیوں کا سوال ہے اس مکروہ عمل میں ملوث لوگوں کو بچانے کے لئے انتظامیہ اور طاقتور طبقات کوشش کررہے ہیں تاکہ ان پر مقدمات درج نہ ہوں اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آسکے۔

انہوں نے کہا کہ چوری کا واقعہ نہیں ہراساں کرنے کا واقعہ ہے جس سے متعلق قوانین بھی معزز ایوان سے منظور ہوچکے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے فوری ایکشن لیا جائے اور تحقیقات کو یونیورسٹی انتظامیہ پر چھوڑنے کی بجائے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی قائم کی جائے تاکہ ہراسگی کا شکار ہونے والے طلبہ و طالبات کمیٹی کے روبرو آکر اپنی شکایات درج کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مہذب ممالک میں طلبہ یونینز قائم ہیں مگر یہاں ان پر پابندی عائد کی گئی ہے اگرطلبہ تنظیمیں یونیورسٹی میں فعال ہوتیں تو کسی کو ہماری بچیوں کی طرف غلط نگاہ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہوتی۔ صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ نے بھی بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والی ہراسگی واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بلوچستان میں آباد باغیرت اقوام کو دکھ پہنچا ہے بلوچستان کی اپنی روایات ہیں۔

صوبے کے عوام نے اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لئے سخت سے سخت مزاحمت کی ہے انہوں نے کہا کہ درسگاہوں میں ادب، اخلاق او رانسانیت کا درس دیا جاتا ہے تاکہ لوگ وہاں سے علم حاصل کرکے اپنے علاقوں میں علم کی شمع کو روشن رکھیں۔انہوں نے کہا کہ یہ عمل کلاس فور کے ملازمین نے نہیں کیا ہوگا اس میں جو لوگ بھی ملوث ہیں انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔

انہوں نے بھی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعات کی تحقیقات کے لئے ایوان کی متفقہ کمیٹی بننی چاہئے۔ پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ المناک واقعے سے ہمارے معاشرے پر خوف و ہراس طاری ہوا ہے والدین تذبذب کا شکار ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے صوبے کی واحد علمی درسگاہ بھیجیں یا نہ بھیجیں۔

انہوں نے کہا کہ ون یونٹ کے دوران ہمارے لوگ میٹرک امتحان دینے کے لئے بھی لاہور جاتے تھے تاہم ہمارے اکابرین جن میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے چودہ سال جیل کاٹی ان کی جدوجہد کی بدولت ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور اس کے بعد صوبے میں واحد علمی درس گاہ کا قیام عمل میں لایاگیا ہمارے اکابرین کی جدوجہد سے قائم ہونے والے ادارے میں روایت شکنی کے واقعات باعث افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان ریسرچ، پی ایچ ڈی، ایم فل کا کوئی طالبعلم نہیں صرف باہر سے عمارت عالیشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں فورسزاور یونیورسٹی کی اپنی سیکورٹی کے باوجود ایسے واقعات کا رونما ہونا باعث تشویش ہے جب تک جامعہ بلوچستان میں طلبہ تنظیمیں فعال تھیں کوئی کسی کی طرف دیکھنے کی جرات تک نہیں کرسکتا تھا دس سے پندرہ سالوں سے طلبہ تنظیموں کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں جس کا آج یہ نتیجہ نکلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات عدالت کے حکم پر کی جارہی ہے اس سلسلے میں ایوان کی کمیٹی بھی تشکیل دی جائے تاکہ صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔ بی این پی کی شکیلہ نوید دہوار نے کمیٹی کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آیا کمیٹی والدین کے اعتماد کو دوبارہ بحال کرسکتی ہے؟ہمارے پاس جب سزا اور جزا کااختیار ہی نہیں تو ہم کیا انصاف کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ معاملے کی شفاف تحقیقات کے لئے ضروری ہے کہ فوری طو رپر وائس چانسلر کو ان کے عہدے سے ہٹایا جائے انہوں نے کہا کہ واقعے کو کور کرنے والے میڈیا کو اپنا سٹیٹمنٹ تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا انہوں نے کہا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے وومن یونیورسٹی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں چند روز قبل بولان میڈیکل یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کیا گیا ان واقعات میں ملوث عناصر کو اب تک کیونکر سزا نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں حقیقی طلبہ تنظیموں پردہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات لگا کر ان پر پابندی عائد کی گئی تاہم وائس چانسلر کے زیر سایہ تنظیم قائم کی گئی جو غیر اخلاقی حرکات میں ملوث ہے انہوں نے کہا کہ واقعے میں بڑے بڑے لوگ کار فرما ہیں جن پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سیکورٹی کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے بتایا جائے کہ کیا وہاں طلبہ وطالبات اسلحہ لے کر گھوم رہے ہیں جنہیں کنٹرول کرنے کے لئے اتنی سیکورٹی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پتہ نہیں ہمارا پڑھے لکھے بلوچستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا یا نہیں انہوں نے کہا کہ وی سی کو برطرف کرکے شفاف تحقیقات کی جائیں اور ملوث عناصر کو کڑی سزا دی جائے۔ جے یوآئی کے سید فضل آغا نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل صوبے کی تعلیم کے خلاف اور یہ صوبے کو پسماندگی کی جانب دھکیلنے کی سازش ہے یہ کوئی چوری کی واردات نہیں بلکہ ہماری پردہ داری پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے اس کی تحقیقات کے لئے معمولی انکوائری کمیٹی نہیں بلکہ اسے بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا جو بھی اس عمل میں ملوث ہے اسے سرعام پھانسی کی سزا دینی چاہئے۔

بی اے پی کی ماہ جبین شیران نے بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تربت، گوادر اور جیونی سے بسوں میں چوبیس گھنٹے کا سفرطے کرکے طالبات یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہیں ان کے ساتھ یہاں پیش آنے والے واقعات کوکوئی غیرت مند انسان قبول نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے جو بھی ملوث ہوا اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو جائے تعیناتیوں پر ہراساں کرنے سے متعلق بلوچستان اسمبلی نے مسودہ قانون بھی منظور کرلیا ہے اور اس سلسلے میں صوبائی محتسب کی تقرری بھی عمل میں لائی گئی ہے شکایات کی صورت میں صوبائی محتسب سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعے سے لوگوں میں بے چینی پائی گئی انہوں نے کہا کہ واقعے کو ڈمپ کیا جارہا ہے لہٰذا ایوان کی کمیٹی قائم کی جائے۔ بی اے پی کے دنیش کمار نے واقعات کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک مہینے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس کی تحقیقات کے لئے متعلقہ اداروں اور ایف آئی اے پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے کمیٹی کی رپورٹ آنے پر ذمہ داروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ قبائلی روایات کے امین ہیں اور ہم یہاں کسی کو روایات کے برخلاف عمل کی اجازت نہیں دے سکتے۔

وزیر واسا و پی ایچ ای نور محمد دمڑ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے، بلوچستان تعلیم کے لحاظ سے انتہائی پسماندہ صوبہ ہے یہاں خواتین کی شرح تعلیم انتہائی کم ہے ایسے میں ان واقعات کا رونما ہونا یقیناً خواتین کی تعلیم کے خلاف گہری سازش بھی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے بھی کمیٹی کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے کمیٹی بنائی گئی ہے پارلیمانی کمیٹی اس کی معاونت کرتے ہوئے تحقیقات کی جائیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین اختر حسین لانگو نے کہا کہ گزشتہ دس سالوں سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کو ختم کیا جارہا ہے طلبہ یونینیز تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے کا ذریعہ تھیں اسمبلی میں بیٹھے زیادہ تر اراکین کی تربیت بھی طلبہ تنظیموں سے ہوئی ہے بلوچستان سیاسی طو رپر پاکستان کا سب سے زرخیز صوبہ تھا اس کی شعوری جدوجہد کو دانستہ طور پر ختم کیا گیا ہماری سیاسی تربیت گاہوں پر وار کیا گیا بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور غیر اعلانیہ طور پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔

وائس چانسلر نے حقیقی طلبہ تنظیموں کو ختم کرنے کے لئے ایک تنظیم بنائی جس میں شمولیت کرنے والے طلبہ کو نمبروں اور ہاسٹل و دیگر سہولیات کا لالچ دے کر انہیں اپنی جانب متوجہ کیا گیا یونیورسٹی کو باقاعدہ طو رپر فورسز کے حوالے کیاگیا اسی طرح سردار بہادرخان وومن یونیورسٹی اور بی ایم سی کا ماحول بھی دانستہ طو رپر خراب کیا جارہا ہے تاکہ بلوچستان میں پڑھنے والی خواتین اساتذہ کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ان تمام سازشوں کو سنجیدگی سے روکنے کی ضرورت ہے حکومتی رکن نے وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی نشاندہی کی کیا کوئی حکومتی نمائندہ یہ بتائے گا کہ اس کمیٹی کے کیا نتائج نکلے؟ یہ معاملہ مہینوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی ترجیحی بنیادوں پر ہونا چاہئے تھا ایف آئی اے نے جو تحقیقات شروع کی ہیں انہیں منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے لیکن بجائے اس کے کہ سکینڈل میں ملوث عناصر جیل میں ہوتے ایف آئی اے کی تحقیقات کو متاثر کرنے کے لئے وزیراعلیٰ کی کمیٹی بنادی گئی اور اب تحقیقات کو مزید چھ ماہ تاخیر کا شکار کرنے کے لئے وائس چانسلر نے بھی کمیٹی بنادی ہے تاکہ وقت اور شواہد ضائع ہوجائے۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقی طور پر وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا اس کے برعکس وہ اور ان کے دیگر افسران اس سکینڈل میں ملوث عناصر کو بچانے کی کوششیں کررہے ہیں آج طلبہ اسمبلی کے باہر انصاف مانگ رہے ہیں ہمارے وطن اور صوبے کے ساتھ گھناؤنی سازش کی گئی ہمیں ایسے واقعات کے تدارک کے لئے منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔

بی این پی کے رکن ٹائٹس جانسن نے کہا کہ کمیٹی بنانے کا مقصد معاملے کو دبانا ہے میں کمیٹی کی تائید نہیں کروں گا لیکن ہمیں اس معاملے کی سنجیدگی سے تحقیقات کرکے سازشی عناصر کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔

ایچ ڈی پی کے رکن قادر علی نائل نے کہا کہ بلوچستان روایتوں کا امین صوبہ ہے بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے نے ہمارے اقدار پر وار کیا ہے میں اس کی اپنی جماعت کی جانب سے مذمت کرتا ہوں طلبہ تنظیمیں نظم پیدا کرتی ہیں اور معاشرے میں سدھار لانے کے لئے کام کرتی ہیں اخلاقی بد نظمی قابل گرفت ہے اس حوالے سے کمیٹی بنائی جانی چاہئے۔

بی این پی کے رکن میر اکبر مینگل نے کہا کہ آج بلوچستان کا چہرہ مسخ کیا گیا وائس چانسلر جامعہ بلوچستان کو مستعفی ہونا چاہئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس معاملے پر ایوان کی باقاعدہ کمیٹی بننی چاہئے۔عوامی نیشنل پارٹی شاہینہ مہترزئی نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعات کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس واقعے میں ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ان کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے۔

پاکستان تحریک انصاف کی زبیدہ بی بی نے کہا کہ وہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہیں اس واقعے کی بھرپور اور شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں بلوچستان کے اقدار کے دفاع کی ضرورت ہے اپوزیشن اور حکومت نے ہمیشہ صوبے کے مسائل پر مشترکہ جدوجہد کرنے کا عہد کیا تھا لیکن ایک سال بعد بھی اپوزیشن نے کئی مسائل اجاگر کئے جن پر اب تک حکومت نے کمیٹیاں بنانے اور انہیں سردخانے میں ڈالنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ہمیں بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسگی کے واقعات کا سخت نوٹس لینا چاہئے اور اقدار کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔

بعدازاں سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعے سے متعلق کمیٹی کے قیام کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی اہم نکتہ ہے اگرچہ اراکین کو اس پر تحریک لانی چاہئے تھی لیکن اس کے باوجود انتہائی اہمیت کے حامل مسئلے پر فرداً فرداً تمام اراکین کو بات کرنے کی اجازت دی تاکہ اس مسئلے پر ایوان کا مشترکہ اظہار رائے سامنے آسکے پوائنٹ آف آرڈر پر اتنا وقت نہیں دیا جاتا لیکن یہ وقت دور دراز علاقوں سے آنے والی ہماری بہنوں اور بچیوں کی عزتوں کی پامالی کا ہے اور ہم اس پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جو وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی اب تک کی گئی تحقیقات کا جائزہ لے گی اور اس بات کا تعین کرے گی کہ کمیٹی نے کہاں تک کام کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہماری بچیاں لاوارث نہیں کمیٹی میں ہر جماعت کا نمائندہ موجود ہوگا انہوں نے کمیٹی میں شامل اراکین کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی صوبائی وزراء میر سلیم کھوسہ،میر اسد بلوچ،وزیراعلیٰ کے مشیر ملک نعیم بازئی،ثناء بلوچ، دنیش کمار،نصراللہ زیرئے، سید فضل آغا، سید احسان شاہ،ماہ جبین شیران اور شکیلہ نوید دہوار شامل ہوں گی کمیٹی جلدازجلد اپنی کمیٹی رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔