بلوچستان کے گزشتہ سال کے بجٹ میں سرکاری اسپتالوں کے لئے دوائیاں خریدنے کی مد میں مختص کی گئی رقم کو خرچ ہی نہیں کیا جاسکا۔اس کو صوبائی حکومت کی بے حسی اورنالائقی کہیں یا کہ عوام کی بدقسمتی۔۔لیکن اس سے یہ بات عیاں ہو ہے کہ ہمارے یہاں ادارے کیسے کام کرتے ہیں۔
صحت کا شعبہ ہو یا کہ تعلیمی اداروں کی صورتحال۔یہاں ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔۔ ٓٓچند سال پہلے کا واقعہ ہے جب آصف زرداری ملک کے صدر ہوا کرتے تھے ان کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر وی آئی پی موومنٹ کے دوران رکشے میں ایک بچے کا جنم ہوا،یہ بچہ تین وجوہات کی بناء پر خوش قسمت تھااول یہ کہ رکشے میں پیدائش کے باوجود وہ اور اس کی غریب ماں زندہ رہے۔
دوسری وجہ یہ کہ جس دن وہ پیدا ہوا اس دن اس وقت کے صدر پاکستان آصف زرداری کوئٹہ میں موجود تھے اور تیسری وجہ جو سب سے زیادہ اہمیت کی عامل ہے وہ یہ کہ الیکٹرونک میڈیا نے اس معاملے کو بہت زیادہ اہمیت دی حالانکہ اس صوبے میں کئی ایسے بدقسمت بچے ہیں جو ناکافی سہولیات کی وجہ سے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں اور کئی بچے غذائی قلت کے باعث مر جاتے ہیں اور اس طرح کے واقعات پر میڈیا کی زبان گنگ ہو تی ہے۔
پھر بھی مذکوہ واقعے کی ایسی کوریج کی گئی کہ واقعی میں لگنے لگا تھا کہ صحت کا شعبہ اب اہم ترین شعبہ بن جائے گا۔اور صوبے میں عام آدمی کو اس حوالے سے ہر ممکن سہولیا ت دستیاب ہونگی لیکن یہ معاملات چند روز تک چلے۔۔کچھ اسپتالوں میں غیر حاضر ڈاکٹروں کی حاضریاں بھی لگ گئیں۔۔دوائیاں بھی آگئیں۔۔لیکن پھر آج یہ صورتحال کہ دوائیوں کے لیے پیسے تو ہیں لیکن دوائیاں کس کے لیے خریدیں یہ فیصلہ تک نہیں ہو پا رہا۔۔۔
چند سال قبل مرتب کردہ اعدادو شمار کے مطابق صوبہ بلوچستان میں پیدا ہونے والے ایک لاکھ نوزائیدہ بچوں میں سے 750 بچے زچگی کے لیے ناکافی سہولیات کی وجہ سے ہر سال مر جاتے ہین۔۔یہ اعداد و شمار ان کیسز کی ہیں جو رپورٹ ہوتی ہیں۔۔۔۔حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔اور ناکافی غذا یا ناقص غذا سے بچوں میں اموات اور بیماریوں کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔۔رواں سال جون میں اس ضمن میں کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارہ ایم ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق صرف اس سال ان کی ٹیم نے صوبے کے چار اضلاع میں گیارہ ہزار ایسے بچوں کا علاج کیا ہے جو ناقص غذا کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو چکے تھے۔
اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبے میں ہر سال آگہی نہ ہونے کے باعث اس طرح کی ناقص غذا استعمال کرنے سے بچوں کی اموات بھی ہوئی ہیں حالانکہ اس حوالے سے مکمل آگہی فراہم کر کے تدارک کی جاسکتی ہے۔لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس ضمن میں ملکی اور غیرملکی ادارواں کی جانب سے خطیر رقم ہر سال خرچ کی جاتی ہے۔۔ملک کے کونے کونے سے آگہی اور سہولیات کی فراہمی کے لیے ہیلتھ ورکرز کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
ان کو دور دراز علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر آسان ملازمتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں لیکن صحیح مانیٹرنگ نہ ہونے کے باعث ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔۔اور بیشتر ملازمین کو بس تنخواہوں سے غرض ہے۔۔ڈیوٹی سے نہیں۔۔ستم ظریفی یہ کہ ان تربیت یافتہ مڈ وائف اور ہیلتھ ورکرز کے ہوتے ہوئے کئی علاقوں میں روایتی دوائیوں پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔۔۔
آخر صوبہ بلوچستان میں زچگی کے دوران اموات اورناقص غذاؤں سے بچوں میں بیماریوں کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے؟اس پر کوئی دو رائے نہیں کہ صوبے میں اس کے لیے سہولیات کی کمی،ڈاکٹروں،مڈوائف اور مستند دائیوں کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن اس کے لیے کئی عوامل ذمہ ار ہیں۔کہتے ہیں کہ ریاست کو ماں کا درجہ حاصل ہے لیکن شاید ہی ایسی بے حس ماں کوئی ہوجس کے لیے اولاد کی جان کوئی اہمیت نھیں رکھتی۔۔
بلوچستان میں ماضی میں سیاسی حالات جیسے بھی رہے ہوں اور آج کل بلوچ سیاسی دھارا کسی بھی رخ پر ہو۔۔ ان سب کے قطع نظر صوبے کے اہم ترین معاملات میں ریاستی بے حسی شرمناک ہے اور اس کے لیے قوم پرست،وفاق پرست اور مذہب پرست سب ذمہ دار ہیں۔۔۔چاہے وہ تین نسلوں سے جاری جام خاندان کی حکومت ہو یا مڈل کلاس کا نعرہ لگانے والی ڈاکٹر مالک کی حکومت۔۔اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے اور عوام کی نہیں بلکہ خواص کی خدمت میں بنیادی اداروں کو تباہ کیا۔۔۔تعلیم اورصحت دو ایسے بنیادی ادارے ہیں جن کو ہر قسم کی لالچ اور بے ایمانی سے پاک کر نا چاہیئے لیکن ہمارے صوبے میں سب سے زیادہ سمجھوتہ ان دونوں شعبوں میں ہوتا رہا ہے۔۔اور ان شعبوں کو شفاف رکھنے کی ذمہ داریاں مختلف اوقات میں مختلف ہاتھوں میں رہی ہے۔
جنھوں نے ان کوکبھی پور ا ہی نہیں کیا ۔ اہم ترین معاملات پر چشم پوشی کی روش کی وجوہات جو بھی ہوں صحت اور تعلیم کے معاملات پر سیاست کرنا قابل نفرت ہونا چاہیئے ۔۔لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ۔زخم کو ناسور بنانے والے ہمیشہ مقتتدر ٹھہرے ہیں۔اور کئی دہائیوں سے مرہم کے نام پر نمک پاشی کی جارہی ہے اورریاستی اشرافیہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے کے مصداق زیادتیوں کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بغاوت سمجھتے ہیں اورعوام کوہی ان کی حالات میں سدھار نہ آنے پر ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
صوبے میں صحت عامہ سے متعلق بگڑتی صورتحال اور زچگی کے دوران اموات کی بڑھتی ہوئی شرح جہاں طبی سہولیات کے نہ ہونے اور مستند اور ماہر دائیوں اور ڈاکٹر کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہے،وہیں اس کی ایک بڑی وجہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں مواصلاتی نظام اورپکی سڑکوں کا نہ ہونا بھی ہے۔۔صوبے میں آج بھی کئی ایسے علاقے ہیں جہاں سے جدید دنیا کا کوئی رابطہ نہیں اور کئی ایک علاقوں سے پکی سڑک تک پہنچنے کے لیے کئی گھنٹے لگتے ہیں۔
اسی طرح کاا یک واقعہ ملک کے مہشورگائنا کولوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ نے ہمیں کچھ اس طرح سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس خضدار کے ایک دیہی علاقے سے ایک مریض لائی گئی تھی جس کو گھر میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں کے باعث ایک قابل علاج مرض لاحق ہو گیا تھا۔۔اور اس کی حالت اس طرح ہو گئی تھی کہ وہ دو سال تک گھر سے باہرنہیں نکلی۔۔اور گھر والوں نے اسے ایک جانور کی طرح دو سال تک باڑے میں زنجیروں سے باندھے رکھا۔۔لیکن کسی نہ کسی طرح جب وہ کراچی لائی گئی اور اس کا علاج ہوا تو وہ اپنے پیروں پر چل کر واپس اپنے علاقے چلی گئی۔
لیکن اب بھی کئی ایسی عورتیں صوبے کے ہر ضلع اور ہر علاقے میں ہونگی جو کہ اس طرح کے قابل علاج مرض میں مبتلا ہیں لیکن علاقے میں ہی طبی سہولیات کی عدم فراہمی اور سماجی ناہمواریوں کے باعث وہ زندگی کے دن گن رہی ہیں۔۔اس پر ستم یہ کہ ان علاقوں میں غیر آگہی نہ ہونے کے باعث صورتحال جوں کا توں ہے،،،
بلوچستان بھر سے مختلف وجوہات کی بنا پر اپنا گھر بار چھوڑنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد صوبے کے دارلحکومت کو ئٹہ سمیت کراچی اور سندھ کے مختلف علاقوں میں عارضی پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد 80ہزار سے 84ہزار تک ہے۔
اور ان میں 26ہزار عورتیں اور 33ہزار بچے شامل ہیں۔۔اور جن علاقوں میں یہ لوگ مقیم ہیں وہاں پر نہ تو پینے کا پانی میسر ہے اور نہ ہی دیگر انسانی ضروریات کے لیے کوئی اور سہولیات۔۔طبی سہولیات سمیت زچگی کے لیے انتظامات تو دور کی بات ہے۔۔۔۔کیا یہ لوگ انسان نہیں ہیں۔۔ ان کے پاکستان کا شناختی کارڈ ہے۔۔اور ہر طرح سے یہ لوگ برابر کے شہری ہیں لیکن ملک میں وی آئی پی کلچر اتنا فروغ پاچکا ہے کہ غریب ملیریا سے مر رہے ہیں اور امیروں کے زکام کا علاج میں امریکہ میں ہوتا ہے۔
مجھے اپنے علاقے کا ایک شخص یاد ہے جو کہ دور دراز ایک پہاڑی علاقے میں رہتا تھا۔۔اور جب بھی شہر آتاتو پیناڈول اور فلیجل کی گولیاں اپنے ساتھ ضرور لے جاتا تھا اور اس کے مطابق یہ گولیاں ہر طر ح کی بیماری کے لیے یہ لوگ استعمال کرتے ہیں چاہے یہ بیماری کچھ بھی ہو۔۔پاکستان میں صحت کے مسائل کچھ بھی ہوں۔۔سب کی جڑیں مختلف وجوہات سے جڑی ہوئی ہیں۔جن میں شرح خواندگی میں کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔۔صوبے کا اگر تین صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسرا یہ کہ صوبے میں 100میں سے تقریبا 30طلباء پرائمری تعلیم کے بعد اسکول کے نہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی کا سلسلہ چھوڑ دیتے ہیں۔۔اور صحت سے آگہی خصوصا ًخواتین کے صحت سے متعلق آگہی پھیلانے کے لیے بلوچستان میں کوئی مستند حکومتی ادارہ موجودنہیں ہے۔
موجودہ دور میں دیکھا گیاہے کہ چند ایک غیر سرکاری ادارے اس سلسلے میں کام تو کر رہے ہیں لیکن کرپٹ ترین ماحول میں یہ ادارے بھی کرپشن کا شکار ہیں اور ان کا دائرہ کار بھی بڑے شہروں تک محدود ہے ۔اور ستم ظریفی یہ کہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں مکمل طور پر غیر ملکی امداد پر انحصار کیا جاتا ہے اور تو اورملیریا تک کے علاج کے لیے بھی مکمل انحصارغیرممالک پر ہے۔۔اور ایک سوئی سے لیکر ایمبولنس تک کے لیے ہماری آنکھیں مغرب پر ٹکی ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ ایک ایسے ملک کی حالت زار ہے جو دنیا میں پہلا اسلامی ملک ہے جو کہ ایٹمی طاقت بھی ہے۔جہاں ملک میں وی آئی پی موومنٹ کے دوران پیدا ہونے والے بچے کو انعام و تحائف سے نوازا جاتا ہے وہاں ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ملک میں زچگی کے دوران اور غذائی قلت سے ہونے والے شرح اموات کو کم کرنے کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جاتا۔
۔اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کوتاہی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور سب سے بڑ ھ کر صحت اور تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے اقدامات اٹھائے جاتے۔لیکن بد قسمتی تو یہ کہ یہاں زخم کو جڑ سے ختم کرنے کا کوئی رواج ہی نہیں ہے۔۔زخم خواہ کتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو،عارضی طور پر مرہم پٹی کر کے اس کو ناسور بننے کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے۔