|

وقتِ اشاعت :   October 18 – 2019

سبی: بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں طلباء و طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کے خلاف میں آل پارٹیز اور سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ،میونسپل کمیٹی سے سبی پریس کلب تک احتجاجی ریلی،ریلی کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے،جس پر وائس چانسلر سمیت ذمہ داروں کے خلاف نعرے درج تھے۔

ریلی کے شرکاء کا پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ،بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں خفیہ کیمرے لگانا ا ورطلباء اور طالبات کوہراساں کرنا قابل مذمت عمل ہے،حکومت واقعے میں ملوث افراد کو برطرف کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور طلبا و طالبات کو تحفظ دیا ئے،سید نور احمد شاہ،میر اسلم جتوئی،مولانا عطا ء اللہ بنگلزئی،احمد خان لونی اور دیگر مقررین کا احتجاجی مظاہرے سے خطاب،تفصیلات کے مطابق آل پارٹیز اور سول سوسائٹی کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں طلباء اور طالبات کی خفیہ کیمروں کے زریعے موویاں بناکر ان کو بلیک میل اور ہراساں کر نے کے خلاف یونیورسٹی کے وائس چانسلر،سیکورٹی آفیسر سمیت دیگر ذمہ داراہلکاروں کے خلاف میونسپل کمیٹی سبی سے ایک احتجاجی ریلی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء سید نوراحمد شاہ اور بی این پی عوامی کے صدر ٹکری محمد اسلم جتوئی کی قیادت میں نکالی گئی۔

ریلی کے شرکاء نے اپنے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ اور سیکورٹی آفیسر سمیت واقعے میں ملوث افراد کے خلاف مختلف نعرے درج تھے احتجاجی ریلی کے شرکاء میونسپل کمیٹی،اقبال روڈ،جناح روڈ اور ریذیڈنسی روڈ سے ہوتے ہوئے سبی پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے اور بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں طلباء و طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کرنے کے خلاف میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور شدید نعرے بازی کی اس موقع پر ملک غلام سرور مرغزانی،محمددین مری،مولانا یحییٰ،مولانا تاج محمداور دیگر موجود تھے۔

اس موقع پر احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے آل پارٹیز کے رہنماووں سید نور احمد شاہ،ٹکری محمد اسلم جتوئی،مولانا عطاء اللہ بنگلزئی،میر غلام روسول سیلاچی،مجتبیٰ خجک،ملک احمد خان لونی،سردار جمعہ خان خجک،نصیر احمدپنی،صلاح الدین چشتی اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوتے کہا کہ بلوچستان میں اب تعلیمی درس گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں صوبہ بلوچستان قبائلی صوبہ ہونے کے باوجودیہاں کے قبائل نے اپنے بچیوں کو تعلیم دلانے کے لئے تعلیمی اداروں میں داخل کر ادئیے لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں کے قبائلی بچیوں کو تعلیم سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بلوچستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارہ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ بھی محفوظ نہیں رہا جہاں وائس چانسلر سمیت اہم عہدوں پر فائز آفیسران گھناونا حرکتوں میں ملوث ہے بلوچستان یونیورسٹی میں خفیہ کیمرے لگا کر طلباء اور طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے بہت کم ہے مقررین نے کہا کہ بات جب ہماری عزت کی ہو تو ہم کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجودملوث افراد کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی انھیں برطرف کردیا گیا ہے انہوں نے گورنر بلوچستان،وزیر اعلیٰ بلوچستان اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی سمیت واقعے میں ملوث آفیسران و اہلکاروں خلا ف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کیا جائے اور انھیں ملازمت سے بر طرف کئے جائیں اور واقعے کی صاف شفاف تحقیقات کر کے اصل حقائق عوام کے سامنے لایا جائے۔