|

وقتِ اشاعت :   October 18 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت یونیورسٹیز کے اختیارات کوگورنرسے وزیراعلیٰ کو منتقل کرکے بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنیوالے دالخراش واقعات کی شفاف تحقیقات کیلئے وائس چانسلرکو برطرف کیا جائے، دالخراش واقعات کیخلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام 24 اکتوبر کو کوئٹہ میں احتجاجی ریلی نکالی جائیگی۔

ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک ولی کاکڑ،مرکزی سیکرٹری اطلاعات و رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ، خواتین سیکرٹری و رکن صوبائی اسمبلی زینت شاہوانی، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پارٹی کے مرکزی رہنماء ساجد ترین ایڈووکیٹ، غلام نبی مری، رمضان ہزارہ، ثمینہ منان شاہوانی ودیگر بھی موجود تھے۔رہنماؤں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد ملک کے دیگر تینوں صوبوں میں یونیورسٹیز کے اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں مگر افسوس بلوچستان میں آج بھی یونیورسٹی کے تمام انتظامی معاملات گورنر بلوچستان کے سپرد ہیں۔

اس سلسلے میں صوبے میں گزشتہ حکومت کے مفادات گورنر سے وابستہ تھے اس لیے انہوں نے یونیورسٹیز کے اختیارات کوگورنرسے وزیراعلیٰ کو منتقل کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے اس لیے ضروری ہے کہ یونیورسٹیز کے اختیارات کوگورنرسے وزیراعلیٰ کو منتقل کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص ذہنیت کے حامل افراد نے منظم منصوبے کے تحت تعلیمی درسگاہوں کو جیلوں میں تبدیل کررکھا ہے وہاں پر وائس چانسلر سے سیکورٹی ادار ے کے سربراہ کا اختیار زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنیوالے دالخراش واقعات نے ہمارے سماج کو ذہنی اذیت اور کرب میں مبتلا کردیا ہے اور لوگ اپنی بچیوں کو یونیورسٹی بھیجنے سے خوف زدہ ہیں دوسری جانب وائس چانسلرکہہ رہے ہیں کہ ایک منصوبے کے تحت یونیورسٹی کی کردار کشی کی جارہی ہے انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ انکے زیر انتظام یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعات نے صوبے کو غم میں مبتلا کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی سمیت سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی اور بیوٹمز میں گزشتہ کئی سالوں سے تعینات وائس چانسلرز نے صوبے میں بننے والی حکومتوں کیساتھ اپنے معاملات کو بہتر کرکے حکومتوں میں شامل لوگوں کوذاتی مراعات اور نوکریاں دیکر عزتوں کا سودا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں پڑھائی اور داخلے عزت کے سودے پردیئے جائیں وہاں کیسے ایک پاپردہ سماج کی بچیاں تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنیوالے واقعات پر انسانی حقوق کے ادارے صوبائی اور ملکی سطح کی سیاسی جماعتوں کی خاموشی باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ڈیرہ بگٹی میں رونما ہونے والے ایک واقعہ سے بلوچستان آج تک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

ادارے کے وائس چانسلر میں اخلاقی جرت ہوتی تو وہ خود مستعفی ہوکر حکومت وقت سے شفاف تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے تاہم وہ ایسا کرنے کی بجائے مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے آمریت سول مارشلا اور نام نہاد جمہوری ادوار میں معاشر ے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ناانصافیوں کے خاتمہ کیلئے اپنا سیاسی، قومی و جمہوری کردار دا کیا ہے،صوبے میں ہونے والے مظالم پر کسی صورت خاموش نہیں رہینگے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں پیش آنیوالے دلخراش واقعات کی شفاف تحقیقات کرکے رپورٹ کو جلد از جلد منظر عام پر لایا جائے۔ شفاف اور آزادانہ تحقیقات کیلئے وائس چانسلر سمیت اسکینڈل میں ملوث افراد کو فل الفو ر معطل کرکے ان کا احتساب کیا جائے۔

اس سلسلے میں بی این پی کے زیر اہتمام 24 اکتوبر کو احتجاجی ریلی نکالی جائیگی، تمام سیاسی جماعتوں، سماجی وکلاء، تاجر، طلباء، ڈاکٹرز، انجینئرزتنظیموں سمیت تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے رابطہ کرکے انہیں ریلی میں شرکت کی دعوت دی جائیگی۔