|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2019

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزراء کے جانب سے میڈیا سے متعلق مسلسل نامناسب رویئے اور اسمبلی فلور پر بعض اخبارات و صحافیوں کے نام لے کر انہیں بلا جواز تنقید کا نشانہ بنانے پر صحافیوں نے اجلاس کی کارروائی کا بائیکارٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

جمعہ کے روز ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے مقامی اخبارات سے متعلق اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے چند مخصوص لوگ اخبارات میں مناسب کوریج نہیں دے رہے جب اس سلسلے میں اخبارات کے ایڈیٹرز سے رابطہ کرتا ہوں تو وہ میرا فون بھی اٹینڈ نہیں کرتا اور نہ ہی ملاقات کیلئے جانے والے میرے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل میں مخصوص گروہ کار فرما ہے جن کے رویئے کے خلاف میں احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کرتا ہوں جس کے بعد وہ ایوان سے علامتی واک آؤٹ کرتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے، مشیر لائیواسٹاک میٹھا خان کاکڑ نے بھی اپنی کوریج نہ ہونے پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہم اپنی تشہیر کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

میڈیا کے نمائندوں نے بھی صوبائی وزراء کی جانب سے میڈیا سے متعلق مسلسل نامناسب رویئے اور اسمبلی فلور پر بعض اخبارات و صحافیوں کے نام لے کر انہیں بلا جواز تنقید کا نشانہ بنانے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔قادر علی نائل کی نشاندہی پر چیئر مین نصراللہ زیرئے صوبائی وزیرخزانہ ظہور بلیدی اور قادر علی نائل پر مشتمل وفد کو صحافیوں سے بات چیت کے لئے بھیجا جنہوں نے یقین دہانی کرائی کہ معزز رکن اسمبلی فلور پر اپنا موقف کی وضاحت کریں گے اور ہم میڑھ لے کر آپ کے پاس آئے ہیں۔

امید ہے کہ آپ ہمارے میڑھ کو عزت دے کر واک آؤٹ ختم کریں گے انہوں نے کہا کہ قلم کی حرمت سے انکار ممکن نہیں میڈیا سے منسلک لوگ ہی ایوان کی کارروائی سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کوئی ذی شعور شخص میڈیا کی قربانیوں سے انکار نہیں کرسکتا انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ساتھیوں کو جو تحفظات ہیں ان کا ازالہ کیا جائے گاجس پر صحافی واک آؤٹ ختم کرکے واپس پریس گیلری میں لوٹ آئے۔

بعدازاں وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے وضاحت دینی چاہئی تو اس وقت فلور ثناء بلوچ کے پاس تھا جنہوں نے انہیں فلور دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب بلوچستان یونیورسٹی میں ہراسگی سے متعلق اہم مسئلہ زیر غور تھا اس وقت موصوف رکن نے اخبارات میں اپنی ذاتی تشہیر نہ ہونے کا معاملہ اٹھایا یہ ایوان کسی کی ذاتی تشہیر کے لئے نہیں یہ بلوچستان کے اجتماعی مسائل کے حل کے لئے بنا ہے۔

اس موقع پر ثناء بلوچ اور زمرک اچکزئی کے مابین تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔بعدازاں وزیر زراعت نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چند مخصوص لوگوں کی بات کی ہے اگر صحافیوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں اس پر معذرت خواہ ہوں اور اس حوالے سے کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضاء الرحمن کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ سپیکر کے چیمبر میں آکر اس معاملے پر میرے تحفظات سنیں اور پھر کوئی فیصلہ کریں۔

انہوں نے الیکٹرانک میڈیا پر بلوچستان اسمبلی کی کارروائی کو کوریج نہ دینے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا میں بلوچستان کے معاملات کو کوریج نہیں دی جاتی۔اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے بائیکاٹ کرنے والے صحافیوں کی ایوان میں واپسی پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ہر جمہوری ملک میں صحافت اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صحافیوں کی خدمات گرانقدر ہیں انہوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں بلوچستان کے مخدوش حالات میں انہیں ٹارگٹ کیا گیا اسمبلی کے سیشن کی کوریج انتہائی اہم ہوتی ہے اس کے ذریعے عوام اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے اسمبلی فلور پر ان کے مسائل کے حل اور حقوق کے لئے کس طرح بات کرتے ہیں۔

تاہم انہوں نے بھی الیکٹرانک میڈیا پر بلوچستان کی کوریج کم ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہمیشہ صحافیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے صحافت پر کسی بھی قدغن کو جمہوریت کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ اجلاس کی صدارت کرنے والے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ ہم پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے دوستوں کی خدمات کی قدر کرتے ہیں اور انہیں سراہتے ہیں تاہم الیکٹرانک میڈیا میں بلوچستان اسمبلی کو کوریج دینے کی گزارش کرتے ہیں۔