خضدار: بی ایس او پجار کے مرکزی سیکریٹری جنرل نادر بلوچ،مرکزی سیکریٹری اطلاعات کریم بلوچ، نیشنل پارٹی کے صوبائی فنانس سیکریٹری سابق چیئرمین بی ایس او محمد امین بلوچ نیشنل پارٹی ضلع خضدار کے جنر ل سیکریٹری میر اشرف علی مینگل بی ایس او کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر اختر بلوچ، سنٹرل کمیٹی کے ممبر برکت بلوچ نے خضدار پریس کلب میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پرُہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے۔
کہ بلوچستان یونیورسٹی میں جس طرح کا سانحہ نماء واقع رونماء ہوا ہے وہ ایک قومی مسئلہ اور بلوچ و پشتون روایات کے بالکل منافی ہے، سرِ فہرست بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت دیگر تمام ملوث افراد کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا جائے،اس کے بعد تحقیقاتی کمیٹی بنائی اور تحقیقات کیئے جائیں،ورنہ ہم کسی بھی کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں، اس اہم حساس مسئلے کو سنجیدگی سے لیکر ملوث کرداروں کے خلاف جب تک کاروائی نہیں کی جاتی ہے۔
بی ایس اوپجار بھر پور احتجاجی تحریک چلائی جائے گی، بہت جلد اس مسئلے پر طلباء تنظیموں کے گرینڈ الائنس کی طرف بھی جائیں گے، 20اکتوبر کو نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے، بی ایس او رہنماؤں کا اعلان۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے خضدار پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عبدالوہاب غلامانی، محمداکبرم بلوچ سمیت دیگرنیشنل پارٹی او ربی ایس او پجار کے اراکین بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس پجار کے رہنماؤں کا کہنا تھاکہ بلوچستان یونیورسٹی میں گزشتہ روز وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا چھاپہ طلباء و طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کے انکشاف و ثبوت نے ہمارے خدشات و تحفظات کو سچ ثابت کردیا ہے طلباء و طالبات کی رہن و سہن وروز مرہ کی زندگی گزارنے والے مقامات پر خفیہ کیمروں کانصب کرنا یونیورسٹی انتظامیہ کی بد تہذیبی کا بین ثبوت ہے۔
فوری طور پر اس وائس چانسلر کو ان کی ٹیم کے ساتھ برطرف کردیا جائے، ہم روزِ اوّل سے یہ کہہ رہے تھے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں خلافِ توقع ایک قبیح گناہوں کا انبار لگ رہاہے لیکن ہماری بات کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے جس کا واضح ثبوت گزشتہ دنوں سامنے آگیا، ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر ان واقعات میں ملوث ہے اس حوالے سے ہم نے واضح ثبوت بمع ویڈیوز اور تصاویر حاصل کرلیئے اور ان کو اختیار داروں تک دیا ہے۔
لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی انہوں نے کہاکہ وائس چانسلر نے یونیورسٹی کو اپنا ذاتی آماجگاہ بنا چکے تھے در اصل یہ خفیہ کیمرے 2015کو نصب کیئے گئے تھے۔۔طلباء وطالبات کر ہراساں کیا جانا اسی دن سے جاری تھا،اس وقت جب ہمارے مطالبے پر نوٹس نہیں لیا گیا تو ہم نے مجبور ہو کر احتجاج شروع کردیا اور آٹھ ماہ تک ہم نے احتجاج کیا اور بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہے۔
اس احتجاج پر ہمارے تنظیمی ساتھی کریم بلوچ سمیت دیگر طلباء کا داخلہ ختم کرکے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا اور بعد ازاں وہ باعزت طریقے سے بری ہوگئے۔بلوچستان یونیورسٹی جیسے تعلیمی ادارے میں انتظامیہ کی ایسی شرمناک حرکت نے اس اہم تعلیمی ادارے کو بدنامی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے، بی ایس او کے سابق چیئرمین محمد امین بلوچ نے کہاہے۔
کہ بلوچستان جیسے تعلیمی ادارے میں انتظامیہ کی ایسی شرمناک حرکت نے اس اہم تعلیمی ادارے کو بدنامی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے اس کی مثال کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی ہے بلوچستان یونیورسٹی جو کہ بلوچستان کا ایک اہم تعلیمی درسگاہ رہاہے اور پانچ سال سے تعینات اس کرپٹ وائس چانسلر نے اس تعلیمی درسگاہ کو تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔
ایسے الفاظ ہیں کہ جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں سے طلباء و طالبات پڑھنے جاتے ہیں جب بلوچستان یونیورسٹی ان کے لئے غیر محفوظ ہوگا تو اس کا اثر پورے بلوچستان پر پڑیگا اور تعلیمی ماحول ابتری کی طرف جائیگا،ناخواندگی میں اضافہ ہوگا، اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور ملوث کردار وں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، ورنہ نتائج سنگین ہونگے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل نادر بلوچ کا کہنا تھاکہ بلوچستان یونیورسٹی میں سفارشی افراد کو بھرتی کرنا پچاس فیصد بجٹ کو سیکورٹی کے نام پر خرچ کرکے یونیورسٹی کا دیوالیہ نکال کرخود کشکول لیکر پھرتے رہنا این ٹی ایس کے امتحان میں 65 فیصد نمبر لینے والے نوجوانوں کو نظر انداز کرکے 45فیصد نمبرز لینے والوں کو فارمیسی و دیگر ڈیپارٹمنٹ میں لیکچرار تعینات کرنا۔
جعلی ڈگریوں کے کاروبار کو فروغ دینا طلباء و طالبات کو بلیک میل کرکے انہیں اپنے مزموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا یہ سب کچھ وائس چانسلر کا شیوہ رہاہے، وائس چانسلر کے تبادلے تک بھر پور تحریک چلائی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ 20اکتوبر کو نیشنل پارٹی کی احتجاجی تحریک میں بی ایس او پجار بھر پور اندا زمیں شرکت کریگی۔