وادی کوئٹہ کے کئی مسائل ہیں جن میں پانی، لوڈشیڈنگ، سڑکوں پر رش انتہائی اہم ہیں۔ آج ہم کوئٹہ کے ٹریفک کے مسئلہ پرنظر ڈالیں گے اور اس کے حل کیلئے کچھ تجاو ز پیش کرینگے۔کوئٹہ شہر 26000کے آبادی کے لئے بنا یا گیا تھا مگر آج اس شہرکی آبادی 30 لاکھ سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ جس کی وجہ سے رش میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کوئٹہ کی تاریخ کے 70سے 80سالوں میں سڑکوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
اگرچہ بہت سی سڑکیں ڈبل ہوئیں اور کچھ کی توسیع بھی ہوئی مگر وہ بھی بغیر منصوبہ بندی کے۔جیسے کہ پچھلی حکومتوں میں سے کئی ایک حکومت نے سڑکوں کی توسیع کی وہ بھی دو یا تین فٹ تک جس سے عوام کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ان سڑکوں کی بغیر منصوبہ بندی توسیع کی گئی جن میں نہ کوئی فٹ پاتھ بنایا گیا اور نہ ہی درخت لگانے کیلئے کوئی جگہ چھوڑی گئی۔درخت ماحول کے لیے انتہائی ضروری ہیں جس کے بغیر انسانی زندگی کا تصور مشکل ہے۔کوئٹہ شہر میں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے اور نئے درخت لگانے کیلئے محکمہ جنگلات کی جانب سے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں ہے۔
سڑکوں کے کنارے درخت لگائیں جائیں جن سے ماحول صاف ستھرا رہتا ہے اور شہر میں ماحولیاتی آلودگی پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔حالیہ دنوں میں جوائنٹ روڈ کی توسیع کا کام شروع ہوا جومکمل ہوچکا ہے۔یہ بہت اچھا منصوبہ ہے اور اس پر تسلی بخش کام کیا جارہا ہے لیکن اس میں کچھ خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ جتنا اس سڑک کو کشادہ ہونا چاہیے تھا،اْس نسبت سے کم ہوئی ہے دوسری طرف اس سڑک کی فٹ پاتھ انتہائی تنگ ہے اور درخت لگانے کے لیے سڑک کے درمیان اور کناروں پر جگہ نہیں چھوڑی گئی ہے۔
جس تیزی سے کوئٹہ شہر کی آبادی بڑھ رہی ہے اگر دیکھا جائے تو آئندہ 5یا دس سالوں میں یہ سڑک بھی رش کی نظر ہو جائے گی۔گاڑی کو موڑنے کے لیے یوٹرن کی بھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔کوئٹہ شہر میں یوٹرن کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز روڈ حادثات ہوتے اور سڑکیں جام رہتی ہیں اگر کسی گاڑی کو سڑک کی دوسری طرف جانا پڑے تو اْس کے پیچھے گاڑیوں کی ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے اور سڑک گھنٹوں تک بند رہتا ہے۔
یہی غلطی جوائنٹ روڈ پر بھی کی گئی ہے جس میں یوٹرن کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ جوائنٹ روڈ کے علاوہ یہ سہولت کوئٹہ شہر میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ شہر میں سڑکوں پر ٹریفک سگنل کہیں بھی نظر نہیں آتے، آج سے بیس سال پہلے کچھ چوکوں پر یہ سہولت نظر آتی تھی جس میں سائنس کالج چوک،ہائی گراؤنڈ چوک شامل تھے لیکن بدقسمتی سے ہم ترقی کے بجائے پیچھے جارہے ہیں،نئی نسل کو یہ پتہ بھی نہیں کہ ٹریفک سگنل ہوتے کیا ہیں۔ٹریفک سگنل نہ ہونے کی وجہ سے کئی سڑکیں جام رہتی ہیں۔
حکومت کو ٹریفک سگنلز کی بحالی پر خاص توجہ دینی چاہیے۔ کسٹم سے ائیرپورٹ تک ہر دوسری سڑک جام رہتی ہے جس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے۔سریاب روڈ جو شہر کی سب سے اہم شاہراہ ہے شہر میں آنے جانے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے اس پر واقع گاہی خان چوک صبح سے شام تک جام رہتا ہے اس کی بڑی وجہ چوک کا تنگ ہونا اور ناقص منصوبہ بندی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اس چوک کو کشادہ کرکے ایک گول چورنگی تعمیر کرے جس سے رش پر قابو پایا جاسکتا ہے۔کوئٹہ کی دوسری بڑی اہم سڑکیں اور چوک جو رش کی وجہ سے اکثر اوقات بند رہتے ہیں ان میں برما ہوٹل، بلوچستان یونیورسٹی چوک، پْرانا اڈہ چوک، سریاب پْل، سبزل روڈ جنگل باغ چوک، پودگلی چوک، گولیمار چوک، دکانی بابا چوک، سرکی روڈ،گوالمنڈی چوک، ڈبل روڈ سریاب پل، امداد چوک، ہاکی گراؤنڈ چوک، آفیسرز کلب چوک، سائنس کالج چوک، مٹھا چوک، سلیم کمپلیکس، منان چوک، میزان چوک، پرانا پشین اسٹاپ، ٹیکسی اسٹینڈقابل ذکر ہیں۔ان جگہوں پر رش کی وجہ چھوٹے چوک،گاڑیوں کی غلط پارکنگ اور غلط ڈرائیونگ ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ پرانے سڑکوں کو ڈبل کرنے کے ساتھ ساتھ نئی شاہراہیں بھی تعمیر کرے تاکہ ٹریفک پر قابو پایا جاسکے۔کوئٹہ شہر میں ذرائع آمد و رفت کے لیے استعمال ہونے والی تین شاہراہیں جن میں سریاب روڈ، قمبرانی روڈ اور مغربی بائی پاس شامل ہیں بدقسمتی سے ان تینوں شاہراہوں کو ملانے کیلئے صرف ایک ہی شاہراہ سبزل روڈ ہے۔جس کی توسیع کی بات ہو رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
سبزل روڈ کے علاوہ حکومت کو چاہیے ان تینوں شاہراہوں کو آپس میں ملانے کے لیے دو مزید لنک روڈ تعمیر کرے جس سے رش میں کافی حد تک کمی آئے گی۔اس منصوبے کے لیے موسیٰ کالونی سید زین الدین آغا کے مزار شریف کے ساتھ ایک سیدھی اور ڈبل روڈ تعمیر کی جائے جس میں فٹ پاتھ، یوٹرن اور درخت لگانے کے لیے جگہ بھی ہو اور اس سڑک کو سیدھا اختر آباد سے ملایا جائے۔اگر ایسا ہوتو یہ شاہراہ تینوں سڑکوں کو ملانے کے ساتھ ساتھ بغیر توسیع 40سے 50سالوں تک شہر کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔اس علاقے کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے حکومتی لاگت میں بھی کمی ہوگی اور اس سڑک پر آمدورفت کرنے والوں کو وقت کی بھی بچت ہوگی اور رش پر بھی کافی حد تک قابو پایا جاسکے گا۔
زمیندار روڈ کو بھی ڈبل کرکے مغربی بائی پاس سے ملایا جائے جس کا بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔موسیٰ کالونی والا سڑک اس سے زیادہ اہم ہے مگر اس کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ان دونوں سڑکوں کی تعمیر سے سبزل روڈ پررش میں کافی حدتک کمی آئے گی۔جنگل باغ چوک سبزل روڈ کی رش کو کم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے بینک کالونی قمبرانی روڈ کے نالے کے ساتھ ایک سڑک کی تعمیر کرے جس کی اراضی زیادہ تر سرکاری ملکیت ہے جس کی وجہ سے سڑک کی تعمیر میں کم لاگت آئے گی۔
سبزل روڈ کو ڈبل کرنے کی جو بات ہورہی ہے یونیورسٹی چوک سریاب روڈ سے جنگل باغ چوک تک بجائے پرانی سڑک کو ڈبل کرنے کی، حکومت کو چاہیے سریاب روڈ نیشنل بینک گرین ٹاؤن کے ساتھ ایک سڑک تعمیر کرکے سبزل روڈ کلی گشکوری کے پاس سبزل روڈ سے ملایا جائے۔اس منصوبے کا فائدہ یہ ہوگا کہ حکومت کی لاگت میں کمی آئے گی کیونکہ پرانے روڈ پہ اکثر عمارات موجود ہیں اور یہ ایریا میدانی علاقہ ہے اور دوسرا عوام کو اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ اْن کو بازار آنے جانے میں آسانی ہوگی، وقت کی بچت اور روڈ سیدھی ہونے کی وجہ سے سفر کم ہوگا۔
پودگلی چوک پر گول چورنگی کی تعمیر سے بھی رش پر قابو پایا جاسکتا ہے۔دکانی بابا چوک سے ایک نئی سڑک کی تعمیر کی جائے جس کو براہ راست سبزل روڈ یا بروری روڈ(یونیورسٹی روڈ)سے ملایا جائے اس سڑک کی تعمیر سے سریاب پھاٹک، جوائنٹ روڈ، رئیسانی روڈ اور مضافات کی عوام کو سبزل روڈ اور بی ایم سی آنے جانے میں آسانی ہوگی۔سرکی روڈ کی رش کو قابو کرنے کے لیے سرکی روڈ پر بھی ایک لنک روڈ کی تعمیر ضروری ہے جو ٹی ٹی سی سرکی روڈ سے سریاب پل ڈبل روڈ میں ملایا جائے۔
یہ سرکی روڈ کی رش کو قابو کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے جس سے گوالمنڈی چوک کی رش پر کافی حدتک قابو کیا جاسکتا ہے۔گوالمنڈی چوک پر کشادہ چورنگی کی تعمیر ناگزیر ہے۔پرانا پشین اسٹاپ کے رش کو کم کرنے کے لیے چمن پھاٹک سے کوئلہ پھاٹک تک ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سڑک کی تعمیر ہونی چاہیے جو جوائنٹ روڈ کو سمنگلی روڈ اور ائیرپورٹ روڈ کو ملانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔اس روڈ کی تعمیر سے پرانا پشین اسٹاپ اور جیل روڈ کا رش بھی کم ہوگا۔
ان تجاویز کے علاوہ حکومت کو چاہیے کہ ماہرین کی ایک ٹیم تشکیل دے جو ایسے سڑکوں کی نشاندہی کرے جن کا رش لنک روڈ کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔سڑکوں کو ڈبل کرنے سے اچھا ہے کہ لنک روڈ تعمیر کیے جائیں جن پر لاگت کی کمی کے ساتھ ساتھ رش پہ فوراً قابو پایا جاسکے گا۔عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شہر کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں اور اْن کی حفاظت کریں۔
حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے جو سڑکیں تعمیر کی جاتی ہیں اْن میں درخت لگانے کے لیے جگہ چھوڑ ی جائے۔محکمہ جنگلات کو پابند کیا جائے کہ وہ سڑکوں پر لگے درختوں کی حفاظت کرے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہرسال مارچ میں شجر کاری تو کی جاتی ہے مگر محکمہ جنگلات صرف اور صرف مارچ کے مہینے میں ان درختوں کو پانی دے کر اپنی جان چھڑاتی ہے اور بعد میں بھول جاتی ہے۔ جو درخت لگائے جاتے ہیں وہ اپریل یا مئی تک ہی زندہ رہتے ہیں۔
اگر حکومت کے پاس ان سڑکوں کی فوری تعمیر کے لیے فنڈز کی کمی ہے تو اْسے چاہیے کہ اسمبلی سے ایک ایسا قانون پاس کرائے کہ آئندہ آنے والی حکومت بھی ان منصوبوں پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہوتاکہ جلد سے جلد شہر کی خوبصورتی میں اضافہ اور رش پر قابو پایا جاسکے۔اْمید ہے کہ میری یہ تحریر حکام بالا تک پہنچے گی اور وہ ضرور اس پر غور کرینگے۔