اولمپکس کے بعد دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کھیلوں کا ایونٹ بس شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔1930ء میں یوروگوئے سے جس سفر کا آغاز ہوا تھا، 84 سال بعد وہ دنیا بھر سے ہوتا ہوا اب براعظم جنوبی امریکا ہی کے ملک برازیل تک پہنچ چکا ہے جو تاریخ میں دوسری بار ورلڈ کپ کی میزبانی کررہا ہے۔
اب تک ہونے والے 19 میں ورلڈ کپ ٹورنامنٹس آٹھ مختلف ٹیموں نے جیتے ہیں جن میں برازیل ریکارڈ پانچ مرتبہ یہ اعزاز حاصل کرچکا ہے۔ دنیائے فٹ بال کی اس سپر پاور کی پوری کوشش ہوگی کہ وہ اس مرتبہ اپنے ہی میدانوں پر عالمی کپ جیتے۔ گو کہ برازیل بحیثیت میزبان ہونے والے واحد ورلڈ کپ 1950ء کے فائنل میں پڑوسی یوروگوئے سے ہار گیا تھا لیکن یہ تاریخ رہی ہے کہ جب بھی ورلڈ کپ اس براعظم میں منعقد ہوا، جنوبی امریکا ہی کی ٹیم عالمی اعزاز جیتنے میں کامیاب رہی۔
بارہ جون سے 13 جولائی تک ہونے والے اس عالمی کپ کے فاتح کا فیصلہ 13 جولائی کو ریو دے جنیرو کے مراکانو اسٹیڈیم میں ہوگا، اسی میدان پر جہاں 1950ء کے فائنل میں برازیل کو یوروگوئے کے ہاتھوں ناقابل یقین شکست ہوئی تھی۔ تو آغاز کرتے ہیں ورلڈ کپ کے 10 ہمیشہ یاد رہنے والے لمحات کا، اسی مقابلے کے ساتھ جسے ‘سانحہ مراکانو’ کہا جاتا ہے۔
“سانحہ مراکانو” – برازیل بمقابلہ یوروگوئے، ورلڈ کپ 1950ء
دوسری جنگ عظیم میں باہم دست و گریباں رہنے والے یورپ کے ممالک کا فٹ بال جوش ٹھنڈا پڑچکا تھا۔ بنیادی ڈھانچے کو سخت ترین نقصان پہنچنے کے بعد اگلے کئی سالوں تک یورپی فٹ بال دوبارہ قدموں پرکھڑی ہوتی دکھائی نہ دیتی تھی جب برازیل نے 1950ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی لی۔ یہ جنوبی امریکا میں فٹ بال کے ایک نئے عہد کا آغاز تھا اور برازیل کو یہ پورا اندازہ تھا کہ اس کے لیے دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کا یہی سنہری موقع ہے۔ سب سے بڑے شہر ریو دے جنیرو میں، جو اس وقت برازیل کا دارالحکومت بھی تھا، میں ایک عظیم اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا تاکہ برازیل کی عالمی فتح کا جشن ایک شایان شان مقام پر منایا جا سکے۔
یہ اپنے وقت کا دنیا کا سب سے بڑا فٹ بال اسٹیڈیم تھا جس میں تماشائیوں کی گنجائش دو لاکھ تھی۔ توقعات کے عین مطابق برازیل فائنل تک پہنچ بھی گیا۔ 16 جولائی 1950ء کو میدان میں لاکھوں تماشائیوں کے روبرو برازیل نے عالمی اعزاز کی جانب حتمی پیشقدمی کی اور دوسرے ہاف کے ابتدائی لمحات میں یوروگوئے پر ایک-صفر کی برتری بھی حاصل کرلی۔ برازیل کو کوئی روکتا نہ دکھائی دیتا تھا۔ میدان میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی لیکن یوروگوئے نے حوصلے نہ ہارے۔ میچ کے 66 ویں اور 79 ویں منٹ میں دو گول داغ کر مقابلہ اپنے حق میں جھکا لیا۔ برازیل آخری 11 منٹ میں مقابلہ برابر نہ کرسکا اور یوں یوروگوئے دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔
برازیل کے دامن سے آج بھی ‘سانحہ مراکانو’ کی بھیانک یادیںچپکی ہوئی ہیں او ر13 جولائی 2014ء کو انہیں مٹانے کا ایک اور موقع مل سکتا ہے۔ کیا برازیل ‘مراکانوکے بھوت’ کو ہمیشہ کے لیے دفن کرپائے گا؟ وقت بتائے گا۔
“خدائی ہاتھ”- ارجنٹائن بمقابلہ انگلینڈ، ورلڈ کپ 1986ء
1982ء میں جزائر فاک لینڈ کے تنازع پر ارجنٹائن اور برطانیہ کے مابین زبردست جنگ لڑی گئی۔ جنوب مغربی بحر اوقیانوس میں ان جزائر پر ارجنٹائن اپنا دعویٰ رکھتا ہے جبکہ وہ برطانیہ کے قبضے میں ہیں یہاں تک کہ 2 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے جزائر پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کرلیا۔ برطانیہ نے فضائیہ اور بحریہ کے ذریعے جوابی کارروائی کی اور 14 جون کو اپنے تمام علاقے ارجنٹائن کے قبضے سے چھڑا لیے۔ ارجنٹائن کے 11 ہزار سے زیادہ فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور جنوبی امریکی ملک کو ایک ذلت آمیز شکست ہوئی لیکن ۔۔۔۔ اس کا پورا پورا بدلہ 4 سال بعد کھیل کے میدان میں لیا گیا۔
بائیس جون 1986ء کو میکسیکو شہر کے اسٹاڈیو ایزٹیکا میں کھیلے گئے ورلڈ کپ کوارٹر فائنل میں ارجنٹائن کے ڈیاگو میراڈونا نے وہ گول داغا جسے آج بھی فٹ بال تاریخ کے بہترین گولز میں شمار کیا جاتا ہے۔ پہلے ہاف میں مقابلہ بغیر کسی گول کے برابر رہا یہاں تک کہ 51 ویں منٹ میں ڈیاگو میراڈونا نے ہورخے والڈانو کی جانب سے ملنے والے پاس پر اپنے ہاتھ سے گیند کو گول کیپر کے اوپر سے اچھال دیا اور حریف کے جال میں پہنچا دیا۔ارجنٹائن کے کھلاڑی خوشی سے دیوانہ وار دوڑ پڑے جبکہ انگلینڈ کی پوری ٹیم ریفری علی بن ناصر کی توجہ مبذول کراتی رہی کہ گیند میراڈونا کے ہاتھ سے لگ کر گئی ہے لیکن کیونکہ میراڈونا کی پھرتی ریفری کی آنکھوں کو دھوکا دے چکی تھی جنہوں نےانگریز کھلاڑیوںکا مطالبہ مسترد کردیا اور یوں ارجنٹائن کو برتری حاصل ہوگئی۔
مقابلے کے بعد جب پریس کانفرنس میں صحافیوں نے میراڈونا سے پوچھا کہ کیا پہلے گول میں آپ کا ہاتھ تھا؟ تو انہوں نے وہ مشہور زمانہ جواب دیا کہ یہ تو مجھے نہیں معلوم، لیکن خدا کا ہاتھ ضرور تھا۔ اسی لیےاس گول کو “خدائی ہاتھ گول” (ہینڈ آف گاڈ)کہا جاتا ہے۔ بہرحال، اس گول کے صرف چار منٹ بعد میراڈونا نے اپنے کیریئر کا خوبصورت ترین گول اسکور کرکے ارجنٹائن کو دو-صفر کا فیصلہ کن غلبہ عطا کیا۔
دس سیکنڈ کے مختصر وقت میں 60 میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے چار انگریز کھلاڑیوں کو غچہ دیا اور گیند کو گول میں پہنچایا۔ عالمی فٹ بال فیڈریشن سے 2002ء میں اس گول کو ‘صدی کا بہترین گول’ قرار دیا تھا۔
“خدائی ہاتھ 2″– یوروگوئے بمقابلہ گھانا، ورلڈ کپ 2010ء
فٹ بال میںہاتھ کا دوسرا بہترین استعمال جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے 2010ء کے ورلڈ کپ میں دیکھا گیا۔ گھانا ناقابل یقین کارکردگی دکھانے کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچا تھا اور جب جوہانسبرگ کے سوکر سٹی میں 84 ہزار سے زیادہ تماشائیوں نے پہلے ہاف کے اختتامی لمحات میں گھانا کو برتری لیتے ہوئے دیکھا تو انہیں یقین تھا کہ اب افریقی ملک کو سیمی فائنل تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ البتہ یوروگوئے کے کپتان ڈیاگو فورلان کےشاندار گول نے 55 ویں منٹ میں مقابلہ برابر کردیا۔
آخری لمحات میں گھانا نے یوروگوئے ایک فری کک پر تقریباً گول حاصل کرلیا تھا لیکن یوروگوئے کے کھلاڑی سواریز نے گیند کو عین اس لمحے پر جال میں جانے سے روک لیا جب وہ گول کیپر سمیت تمام کھلاڑیوں کو غچہ دے چکی تھی۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے گیند کو واپس میدان میں اچھال دیا اور یوں ریڈ کارڈ کے ذریعے مقابلے سے باہر ہوگئے۔
جب سواریز روتے اور آنسو پونچھتے ہوئے میدان سے باہر جا رہے تھے تو گھانا کے کامیاب ترین کھلاڑی ایساموا جیان پنالٹی کک کی تیاری کررہے تھے۔ گیند کو گول کے بالائی حصے میں پہنچانے کی کوشش ناکام ہوئی اور مقابلہ پنالٹی شوٹ آؤٹ مرحلے میں چلا گیا جہاں یوروگوئے کے گول کیپر نے دو گول بچا کر ملک کو شاندار کامیابی دلا دی۔ گھانا کے سیمی فائنل کھیلنے کے خواب چکناچور ہوتے دیکھنا ایک یادگار، بلکہ ایک لحاظ سے مایوس کن منظر تھا۔
“برن کا معجزہ”– مغربی جرمنی بمقابلہ ہنگری، ورلڈ کپ 1954ء
ایک انتہائی مضبوط حریف کے خلاف نوجوانوں پر مشتمل ٹیم ورلڈ کپ کے فائنل میں ابتدائی 8 منٹ میں دو گول کھا بیٹھے تو نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟ بالکل، شکست ہی ہوگا۔ لیکن اگر معجزہ ہوجائے تو؟ اور مغربی جرمنی نے 1954ء میں یہ معجزہ کر دکھایا۔ 4 جولائی کوبرن، سوئٹزرلینڈ کے وانکڈورف اسٹیڈیم میں ہونے والے اس فائنل سے قبل ہنگری ایک ناقابل شکست ٹیم بن چکی تھی۔ ورلڈ کپ سے پہلے مسلسل 32 مقابلوں میں اسے دنیا کی کوئی ٹیم شکست نہ دے سکی تھی اور خود مغربی جرمنی کا یہ حال تھا کہ گروپ مقابلے میں وہ ہنگری سے 3 کے مقابلے میں 8 گولوں سے شکست کھاچکا تھا۔
یہی حالت فائنل کے ابتدائی لمحات میں بھی رہی جب چھٹے منٹ میں ہنگری کے کپتان فرینک پسکاس اور آٹھویں منٹ میں زولتان چیبور نے گول اسکور کردیے۔ جرمنی نے نہلے پہ دہلا پھینکا اور اگلے دس منٹوں میں دو گول اسکور کرکے معاملہ برابر کردیا۔ لیکن حتمی و فیصلہ کن ضرب کے لیے انہیں میچ کے اختتامی لمحات کا انتظار کرنا پڑا اور 84 ویں منٹ میں ہلموت راہن کے گول نے اسے ایک تاریخی فتح تک پہنچا دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد تعمیر نو کے مراحل سے گزرنے والے جرمنی کے لیے یہ فتح حوصلوں کو بلند کرنے والی تھی اور اس کا زبردست جشن بھی منایا گیا۔ 2003ء میں جرمنی نے اسی موضوع پر ‘برن کا معجزہ’ نامی ایک فلم بھی بنائی۔
“پیلے، پیلے” – برازیل بمقابلہ سوئیڈن، ورلڈ کپ 1958ء
برازیل عالمی فٹ بال تاریخ میں سب سے زیادہ بار ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم ہے لیکن 1950ء میں اعزاز کے بہت قریب پہنچنے کے بعد اس سے محروم رہ جانے کے بعد ورلڈ کپ جیتنے کی تمنا مزید بڑھ گئی اور بالآخر 1958ء میں یہ خواب سوئیڈن کے شہر سولنا میں پورا ہوا جہاں 29 جون کو برازیل نے یکطرفہ فائنل مقابلے میں میزبان سوئیڈن کو شکست دے کر پہلی بار ورلڈ کپ ٹرافی اٹھائی۔
یہ مقابلہ ایک عظیم فٹ بالر کی آمد کا اعلان تھا، پیلے! جن کی عمر اس وقت صرف 17 سال تھی۔ انہوں نے میچ کے 55 ویں اور اس کے بعد آخری منٹ میں دو گول داغے۔ گو کہ اس مقابلے میں سوئیڈن نے چوتھے منٹ ہی میں برتری حاصل کرلی تھی لیکن پھر مقابلہ اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ برازیل عالمی قوت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا اور نہ صرف 1962ء میں اپنے اعزاز کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ بعد میں 1970ء، 1994ء اور 2002ء میں ورلڈ کپ بھی جیتے۔ اس شاندار کارکردگی کو پہلی بار تحریک پیلے نے بخشی تھی۔
“اس وقت مجھے بھٹکا دینا”– اٹلی بمقابلہ برازیل، ورلڈ کپ 1994ء
برازیل کو آخری بار عالمی کپ جیتے ہوئے 24 سال کا عرصہ گزر چکا تھا جب 1994ء کا ورلڈ کپ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں کھیلا گیا۔ روماریو، بیبیتو اور کافو جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ نوجوان رونالڈو کی خدمات رکھنے والا برازیل پورے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے فائنل تک پہنچا تھا جہاں اس کا مقابلہ آئرلینڈ کے خلاف اپ سیٹ شکست کھانے کے بعد سنبھلنے والے اٹلی سے تھا جسے پہنچانے میں سب سے نمایاں کردار رابرٹو باجیو کا تھا۔
اسٹار فارورڈ نے نائیجیریا کے خلاف اہم ترین مقابلے میں دو مرتبہ گول اسکور کیے اور پھر اسپین کے خلاف کوارٹر فائنل میں فیصلہ کن گول داغ کر ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ یہاں بلغاریہ کے خلاف فتح میں بھی باجیو سب سے اہم رہے اور جب برازیل کے خلاف فائنل میں مقررہ وقت میں مقابلہ بغیر کسی گول کے برابر رہا اور تاریخ میں پہلی بار فائنل کا فیصلہ پنالٹی شوٹ آؤٹس پر ہونے جا رہا تھا تو یہی باجیو فیصلہ کن اور اہم ترین پنالٹی کک کے لیے میدان میں آئے۔ پوری قوم کا انحصار اس ایک کک پر تھا جو باجیو نے ضائع کردی۔
اتنے لمبے سفر کے بعد شاندار انفرادی کارکردگی کے ذریعے ٹیم کو فائنل تک پہنچانا اور محض ایک لمحے کی غلطی سے عالمی کپ کھو بیٹھنا، باجیو اور پورے اٹلی کے لیے ایک مایوس کن لمحہ تھا۔
اٹلی کو اگلا ورلڈ کپ جیتنے کے لیے 12 سال انتظار کرنا پڑا جب اس نے 2006ء میں پنالٹی شوٹ آؤٹس پر ہی فرانس کو شکست دی اور چوتھی بار عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔
“چھوٹی سی غلطی اور سزائے موت! “– کولمبیا بمقابلہ امریکا، ورلڈ کپ 1994ء
1994ء کا فٹ بال ورلڈ کپ برازیل کے لیے تو خوشیوں کا پیغام لایا لیکن کپ سے منسلک ایک واقعے نے پوری دنیا کو رنج میں مبتلا کردیا۔ کولمبیا کے دفاعی کھلاڑی آندرے اسکوبار 22 جون کو امریکا کے خلاف کھیلے گئے مقابلے میں غلطی سے گیند کو اپنے ہی گول میں ڈال بیٹھے۔ امریکا اس گول کی وجہ سے مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ کولمبیا سے ماہرین اور شائقین کو خاصی امیدیں وابستہ تھیں لیکن ٹیم نے مایوس کن کارکردگی دکھائی اور گروپ مرحلے ہی میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔
لیکن 27 سالہ اسکوبار کا گول سٹے بازوں کو بالکل نہ بھایا اور جب اسکوبار ورلڈ کپ کے بعد اپنے وطن واپس پہنچے تو محض 10 دن بعد میڈیلن شہر میں انہیں 6 گولیاں مار کر قتل کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے قاتل نے گولیاں مارتے ہوئے “گوووووول” کی صدا بھی بلند کی تھی۔ اس قتل پر کولمبیا کے فٹ بال شائقین کو سخت صدمہ پہنچا اور یہ کتنا بڑا واقعہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ اسکوبار کی آخری رسومات میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔
“وہ ایک ٹکر”- فرانس بمقابلہ اٹلی، ورلڈ کپ 2006ء
9 جولائی 2006ء اور برلن کے اولمپیاسٹیڈین میں ورلڈ کپ کا فائنل اٹلی اور فرانس کے درمیان جاری تھا کہ اضافی وقت کے دوران اچانک فرانس کے کپتان زین الدین زیڈان نے حریف دفاعی کھلاڑی مارکو میٹارازی کو زبردست ٹکر سے زمین پر گرا دیا۔ ریفری نے تو ایک لمحے کا بھی توقف کیے بغیر زیدان کو باہر کی راہ دکھا دی لیکن میدان میں موجود 69 ہزار تماشائی اور دنیا بھر کے کروڑوں فٹ بال پرستار حیران تھے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ زیڈان نے اپنے آخری بین الاقوامی مقابلے میں ایسی حرکت کی جو نہ صرف ان کے کیریئر کے مایوس کن اختتام کا سبب بنی بلکہ فرانس کو بھی بعد ازاں پنالٹی شوٹ آؤٹس میں شکست ہوئی۔
بعد ازاں ثابت ہوا کہ میٹارازی نے کھیل کے دوران زیدان کی بہن کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے جس پر فرانسیسی کپتان نے انہیں ٹکر مار دی۔ زیڈان نے بعد ازاں واقعے پر معافی ضرور مانگی لیکن واضح کیا کہ انہیں اپنی حرکت پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ بہرحال، زیڈان کی اس ٹکر کے ساتھ فرانس کا تیسری بار ورلڈ کپ جیتنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔
“نیورمبرگ کی جنگ”– پرتگال بمقابلہ نیدرلینڈز، ورلڈ کپ 2006ء
ورلڈ کپ 2006ء کے پرتگال اور انگولا ایک ہی گروپ میں کھیلے تو بہت خطرہ تھا کہ دونوں کے کھلاڑیوں کے درمیان بہت ہنگامہ خیزی ہوگی۔ انگولا صدیوں تک پرتگال کی غلامی میں رہا تھا جس نے افریقی ملک کے وسائل کو اتنی بے دردی سے لوٹا تھا کہ آج تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو پایا۔ بالخصوص غلاموں کی تجارت، جس نے انگولا کی بڑی آبادی کو برازیل میں منتقل کیا، ملک کے آبادیاتی منظرنامے ہی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے پرتگیزیوں کی نفرت انگولا کے باشندوں کی گھٹی میں موجود ہے اور جب 11 جون کو دونوں ٹیمیں مقابل آئیں تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حالات اب قابو سے باہر ہوئے کہ تب ہوئے لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ مقابلہ گو کہ ‘دوستانہ ماحول’ میں نہیں کھیلا گیا لیکن پھر بھی خدشات خدشات ہی رہے۔
لیکن اسی ورلڈ کپ میں جو مقابلہ ‘جنگ آزادی’ کا روپ دھار گیا تھا وہ نیدرلینڈز اور پرتگال کے مابین کھیلا گیا کوارٹر فائنل تھا۔ نیورمبرگ کے فرانک اسٹاڈین میں ہونے والے اس مقابلے میں 4 کھلاڑیوں کوسرخ اور 16 کوپیلے کارڈز دکھا کر نیا ریکارڈ قائم کردیا گیا۔
روس سے تعلق رکھنے والے ریفری ویلنتن ایوانوف نے دوسرے منٹ سے جو کارڈ نکالنے کا سلسلہ شروع کیا تو وہ بالکل آخری لمحات تک رکنے میں نہیں آیا۔ پرتگال کے 7 کھلاڑیوں کو پیلے اور دو کو سرخ جبکہ نیدرلینڈز کے 5 کھلاڑیوں کو پیلے اور دو کو سرخ کارڈ دکھائے گئے۔
اس مقابلے میں ریفری کی پھرتیوں پر بعد ازاں خود فیفا کے صدر سیپ بلاٹر نے تنقید کی اور یہ تک کہا کہ ایک پیلا کارڈ ریفری کو خود کو بھی دکھانا چاہیے تھا۔ بہرحال،’نیورمبرگ کی جنگ’ پرتگال کی ایک-صفر سے جیت اور سیمی فائنل تک رسائی کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔
“مرگ بر امریکا” – ایران بمقابلہ امریکا ورلڈکپ 1998ء
اکیس جون 1998ء جب “بدی کے محور” کے ایک رکن ایران اور “شیطان بزرگ” امریکا کے درمیان فرانس کے شہر لیون میں وہ تاریخی مقابلہ کھیلا گیا۔ 1979ء کے انقلابِ اسلامی کے بعد سے ایران-امریکا دشمنی دنیا پر عیاں تھی۔
انقلاب کے روح رواں آیت اللہ خمینی نے امریکا کو ‘شیطان بزرگ’ قرار دیا تھا جبکہ امریکا نے جن تین ریاستوں کو ‘بدی کے محور’ کا حصہ قرار دیا ، ان میں ایران نمایاں تھا۔ اس لیے سیاسی پس منظر ہونے کی وجہ سے یہ مقابلہ اتنی ہی اہمیت کا حامل تھا جتنا کہ 1986ء کا ارجنٹائن-انگلینڈ مقابلہ لیکن حیران کن طور پر یہ بہت ہی غیر متوقع نکلا۔ دونوں ملکوں کے قومی ترانوں کے بعد ایران کے کھلاڑیوں نے خیرسگالی کے طور پر سفید پھولوں سے سجے گلدستے امریکی کھلاڑیوں کو دیے اور پھر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایک ساتھ یہ یادگار تصویر کھنچوائی۔
یہ بلاشبہ ایک یادگار لمحہ تھا، ان 39 ہزار تماشائیوں کے لیے بھی کہ جو میدان میں موجود تھے اور ان کے لیے بھی جو ایران اور امریکا سمیت دنیا بھر میں ٹیلی وژن اسکرینوں پر اس مقابلے کو دیکھ رہے تھے۔ حامد رضا اور مہدی مہداویکیا کے شاندار گولوں کی بدولت مقابلہ تو ایران نے جیتا، لیکن درحقیقت اس مقابلے نے ثابت کیا کہ سیاست کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور رہنے والے عوام کو قریب لانے میں کھیل کتنا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔