بلوچ قوم کے عظیم رہنما نواب خیر بخش انتقال کرگئے ۔ ان کی رحلت نے بلوچ قوم میں صف ماتم بچھا دی ہے ۔ نواب مری کئی حوالوں سے ایک منفرد اور ممتاز سیاسی رہنما تھے ۔ ان کی ساٹھ سالہ زندگی عظیم دکھوں اور المیوں سے تعبیر رہی ۔ ان کی شخصیت کا خاص پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سیاسی نظریات پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ انہوں نے لفاظی کی بجائے عمل کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ان کے سامنے اول و آخر بلوچ گل زمین کی حیثیت ہے ۔ انہوں نے اپنے آخری پیغام میں بھی کہا کہ وہ بلوچ گل زمین کے لئے جو کچھ کرنا چاہتے تھے اس کا حق ادا نہیں کر سکے ۔ بلوچ قوم کے ہر دلعزیز اور غیر متنازعہ سیاسی رہنما نے بلوچ قوم سے کہا کہ ان کی موت کے بعد بھی نجات کی سیاسی جدوجہد کو بر قرار کھا جائے ۔ آپس میں اتفاق و اتحاد کیا جائے کیونکہ بلوچ قوم کی شناخت کو خطرات لاحق ہیں ۔ نواب مری نے نیپ حکومت کے خاتمہ ‘ قائدین کی گرفتاری اور بلوچستان میں طویل فوجی آپریشن کے بعد پارلیمانی سیاست کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ترک کردیا ۔ وہ انتہائی پڑھے لکھے‘ مہذب ‘ دانش ور اور فلاسفر شخصیت تھے ۔ وہ میڈیا سے کبھی قریب نہیں رہے ۔ انہوں نے جو کچھ بھی اپنے انٹر ویو ز اور بیانات میں کہا، سوچ سمجھ کر کہا ۔ وہ روایتی سیاست ‘ جلسے ‘ جلوس ‘ قراردادوں کی سیاست کو پسند نہیں کرتے تھے وہ جمہوریت میں محض ووٹ ڈالنے کی رسم کو ظلم سے تعبیر کرتے تھے ۔ وہ بغیر کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنی بات کرتے تھے ۔ اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے وہ تمام عمر پاکستان کے حکمران طبقات کی نظروں میں کھٹکتے رہے ۔ ایک جانب ان کو اپنے قریبی ساتھیوں کی بے وفائی کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری جانب ان کے جانثار ساتھیوں کو چن چن کر قتل کردیا گیا ۔ 2000کیااوائل میں انہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے نامزد چیف جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری سے بلوچستان میں جو آگ بھڑک اٹھی آج بھی اس کے شعلے تھمے نہیں ہیں ۔ انہوں نے پارلیمانی طرز سیاست پر ہمیشہ مسلح جدوجہد کو اہمیت دی ۔ وہ بلوچوں کے قومی تشخص اور انہیں اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل کرنے کے حوالے سے خاصی حساسیت رکھتے تھے ۔ بلوچستان میں جاری سیاسی مزاحمتی تحریک کے دوران مختلف حکومتوں کے دوران مختلف ذرائع اور سیاسی و قبائلی شخصیات کے ذریعے ان سے ملاقات اور رابطوں کی بار بار خواہش کی گئی لیکن کسی بھی حکومتی شخصیت کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ ان سے بات چیت تو کجا ‘ ملاقات ہی کر سکیں ۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو بھی ان کی مرضی کے بغیر ان کی رہائش گاہ پر جا کر بالاچ مری کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا ۔ خاتون ہونے کے ناطے نواب مری نے ان سے ملاقات کی لیکن سیاسی گفتگو سے گریز کیا ۔ نواب مری نے اپنی زندگی میں مختلف نشیب و فراز دیکھے۔ ان کے قبیلہ میں ان کے مخالفین کو پیدا کیاگیا، انہیں شہید کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔ متعدد بار انہیں سیاسی نظریات رکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل کیا گیا لیکن انہوں نے کبھی کسی سے ذاتی بدلہ نہیں لیا۔ کبھی اپنی قوم سے شکوہ و شکایت نہیں کی ہر غم ‘ ہر دکھ کو خاموشی سے قبول کیا ۔ اگر وہ بلوچ معاشرے کی بجائے کسی ترقی یافتہ معاشرے کے رہنما ہوتے تو ان کا سیاسی مرتبہ نیلسن منڈیلا سے بھی بڑا ہوتا ۔انہوں نے ہر قسم کی مراعات کو ٹھکرادیا اور بڑی سادہ سی زندگی گزاری ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کو بلوچ قوم کی جانب سے انتہائی عقیدت سے دیکھا جاتا تھا لیکن جتنی بڑی شخصیت ان کی تھی اس کی پہچان نہیں ہوسکی کیونکہ وہ ایک منکسر المزاج اور خود نمائی اور شہرت سے دور رہنے والے سیاسی رہنما ء تھے ۔ وہ ایک مفکر اور دانش ور بھی تھے ۔ پورے خطہ میں ا ن کے مد مقابل کی سیاسی شخصیت پیدا نہیں ہوسکی ۔ بلوچ تاریخ میں ان سے قبل اور ان کی رحلت کے بعد بھی ان کے قدو کاٹھ کی سیاسی شخصیت نظر نہیں آتی ۔ ان کا مؤقف بڑا واضح تھا اور یہ کسی بھی بلوچ رہنما ء کے مقابلے میں بالکل الگ بات تھی ۔ انگریزوں کے بلوچستان پر قبضہ اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد بلوچستان میں ہر بلوچ سیاسی شخصیت کے نظریات اور سیاسی مؤقف میں تبدیلی آتی رہی لیکن نواب مری زندگی کے آخری لمحوں تک اپنے مؤقف پر قائم رہے ۔ گو ان کی زندگی میں ان کے خواب پورے نہیں ہوئے لیکن انہوں نے بلوچ قوم کو جو راہ دکھائی اس سے انکا رممکن نہیں۔ ایسی سیاسی شخصیات صدیوں میں جنم لیتی ہیں ۔ ان کی وفات کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی حیثیت اور قدرو منزلت میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ ان کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی ۔ بلوچستان میں نظریاتی سیاسی تاریخ کا ایک بہت بڑا باب ان کی وفات سے بند ہوچکا ۔ لیکن ان کی جدوجہد ‘ افکار اور نظریات کے اثرات کے پھیلاؤ سے صر ف نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ ان کاسیاسی کردار ‘ علم ‘ تہذیبی شرافت ‘ رکھ رکھاؤ ‘ اور افکار بلوچ قوم کا اثاثہ ہیں جو اس قوم کو منزلوں کا پتہ دیتے رہیں گے۔