برازیل میں عالمی کپ کے لیے انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی ساری توجہ کسی اکیلے دکیلے کارروائی کر سکنے والے ایسے دہشت گردوں پر ہے جن کے لیے ’لون وولوز‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔
تاہم، وزیر انصاف نے ہوزے ایڈوارڈو کارڈوزو کا کہنا ہے کہ ایسی کسی کارروائی یا حملے کا امکان نہیں ہے۔
برازیلی حکام نے بی بی سی سے ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مظاہرین یا سکیورٹی فورسز، کسی کی جانب سے تشدد کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘برازیل کی سکیورٹی فورسز نے کیمیائی اور حیاتیاتی ہر طرح کے حملوں سے نمٹنے کی تیاری کی ہوئی ہے۔
یہ سب تیاریاں بوسٹن میراتھن 2013 کو سامنے رکھ کر، کسی بھی انتہاپسندانہ حملے کے امکان کو سامنے رکھ کر کئی گئیں ہیں۔
بوسٹن میں دو مشتبہ افراد نے جن کا کسی انتہا پسند گروہ تعلق نہیں تھا۔ بوسٹن میں ہونے والے دو دھماکوں میں تین افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔
برازیل کی انسداد دہشت گردی کی ٹاسک فورس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ مشہور دہشت گرد گروپوں سے کسی رابطے یا تعلق کے بغیر بھی کوئی اکیلا دکیلا، انتہا پسندی یا دہشت گردی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
’اس نوع کی حملہ انتہائی مشکل ہو سکتا ہے کہ کیونکہ اس کا قبل از وقت سراغ لگانا دشوار ہوتا ہے۔ عالمی کپ کے مقابلوں میں حفاظتی انتظامات کے لیے ایک لاکھ 70 ہزار سکیورٹی اہلکار فرائض انجام دے رہے ہوں گے۔‘
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 36 ہیلی کاپٹر اور سپیشل فورس کے اہلکار الگ موجود ہوں گے۔
برازیل میں جاسوسی کے ادارے اس سلسلے میں دوسرے ملکوں میں جاسوسی کے اداروں سے بھی رابطے میں ہیں اور رہیں گے۔
عالمی کپ کے موقعے پر کم از کم سات مختلف سماجی تحریکوں نے برازیل کے کئی شہروں میں جمعرات کو افتتاحی میچ کے موقع پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
برازیلی حکام کا کہنا ہے احتجاج پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ’ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔‘