|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2014

اسلام آباد: اتوار کے روز سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کا زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا تھا۔ توقع کی جارہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس حوالے سے آج بروز پیر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیراعظم کے آفس کے ذرائع کے مطابق نواز شریف پیر کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، جہاں توقع ہے کہ وہ آپریشن ضربِ عضب کے حوالے سے ایک پالیسی بیان پیش کریں گے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یہ اعلان کیا ہے کہ اس کی کور کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ فوجی آپریشن کی حمایت کی جائے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ایک مریضانہ مشورہ ہے، اور حکومت کو چاہیٔے کہ وہ صرف ان گروپس کے خلاف کارروائی کرے جو مذاکرات پر آمادہ نہیں تھے۔ اسی دوران جماعت اسلامی واحد ایسی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے، جو آپریشن کی کھلم کھلا مخالفت کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کی جانب سے اس خوف کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس آپریشن کا نشانہ صرف معصوم لوگ بنیں گے، نہ کہ دہشت گرد۔ اتوار کی سہہ پہر ایک ہینڈ آؤٹ جاری کیا گیا، جس میں انٹر سروسز پبلک ریلیشن (آئی ایس پی آر) نے باضابطہ طور پر یہ اعلان کیا کہ ایک فوجی آپریشن جسے ضربِ عضب کانام دیا گیا، شمالی وزیرستان میں شروع کردیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ایک اہلکار کے مطابق عضب سے مُراد حضور نبی کریم ﷺ کی اس تلوار کی وہ تلوار ہے، جو غزوۂ احد میں آپ ﷺ نے استعمال فرمائی تھی۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ٹی وی چینلز پر آپریشن کے شروع ہونے کی تصدیق کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ یہ آپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ وزیرِ دفاع نے کہا کہ یہ آپریشن حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کے بے نتیجہ ختم ہوجانے کے بعد شروع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ان دہشت گردوں نے ریاست کی عملداری کو للکارا ہے، اس کے آئین کو مسترد کیا ہےاور یہ لوگ معصوم لوگوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کررہے ہیں۔‘‘ خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت نے اس آپریشن کو شروع کرنے کا فیصلہ آپریشن کے بعد حاصل ہونے والے فوائد کے تجزیے کے بعد کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ اتوار کو جاری کیے گئے ایک بیان میں وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے قوم سے اپیل کی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں حکومت اور مسلح افواج کا حوصلہ بلند کرے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا، لیکن امن کے لیے ان کی کوششوں کے باوجود انہوں نے معصوم لوگوں کی ہلاکت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب وہ یا تو ہتھیار ڈال دیں یا پھر شکست کا سامنا کریں۔ مذاکراتی عمل میں شریک وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے پُرامن حل کے لیے مذاکرات کی خاطر اپنے تمام اختیارات استعمال کیے، لیکن دوسرے فریق کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی ترجمان شیریں مزاری اس آپریشن کے حوالے سے ایک پالیسی بیان دینے میں تذبذب کی شکار نظر آئیں۔ انہوں نے ڈان سے کہا ’’وزیراعظم کو چاہیٔے تھا کہ وہ آپریشن کے بارے میں سیاسی قیادت کو اپنے اعتماد میں لیتے۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی پیر کے روز اپنے اجلاس میں اس نئی پیش رفت کے تناظر میں تفصیلی ردعمل پیش کرے گی۔‘‘ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے صوبے جس کی سرحدیں قبائلی علاقے کے ساتھ لگتی ہیں، وہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت اس آپریشن کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے آپریشن شروع کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا، لیکن انہوں یہ مطالبہ بھی کیا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں آئیں اور سیاسی قیادت کو اس حوالے سے اعتماد میں لیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن نے کہا کہ صوبائی حکومتوں کو اب دہشت گردوں کے ردّعمل سے بچنے کے لیے احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے فوجی کارروائی کی مکمل حمایت کی۔ لندن سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں الطاف حسین نے مسلح افواج کو غیرمشروط تعاون کی پیشکش کی اور یقین دلایا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان ان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے آپریشن کی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت شروع ہی سے مذاکرات کے حوالے سے مخلص نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ آپریشن شروع کرنے سے پہلے حکومت کو چاہیٔے تھا کہ وہ ملک کی سیاسی قیادت اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ مشاورت کرتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت نے اپنے کارکنان کو متحرک کردیا ہے اور جماعت کے کارکنان الخدمت فاؤنڈیشن کے کارکنوں کے ساتھ آپریشن سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال کریں گے۔ جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما پروفیسر ابراہیم نے ڈان کو بتایا کہ دہشت گرد شمالی وزیرستان سے فرار ہونے کا بندوبست کرلیں گے، جبکہ اس آپریشن میں معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ جمعیت علمائے اسلام فضل کے ترجمان جان اچکزئی نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ایک آپریشن کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا، جب تک کہ عسکریت پسندی کے خلاف ایک واضح پالیسی اختیار نہ کرلی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عسکریت پسندوں کے ایک خاص گروپ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ملک کے ہر کونے میں ریاست کی عملداری بحال کرنے پر حکومت کو کام کرنا چاہیٔے۔‘‘ دفاعی تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ اس آپریشن کے سلسلے میں مسلح افواج کو قوم، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کی مکمل حمایت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے میں تقریباً دو ہفتہ لگ جائے گا۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالقیوم نے ڈان کو بتایا کہ ہزاروں غیرملکی شہری، جن میں ازبک نژاد لوگ بھی شامل ہیں، کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں چھپے ہوئے ہیں۔