|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مختلف محکموں سے متعلق سوالات کے جوابات موصول نہ ہونے اور سیکرٹریز کی ایوان میں عدم موجودگی کو اراکین اسمبلی نے اپنا استحقاق مجروع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ کے باوجود سیکرٹریز اجلاس میں شریک نہیں ہوتے انہیں اجلاس میں شرکت کا پابند بنایا جائے حکومت اور اپوزیشن اراکین نے انتظامی سربراہاں کو پروجیکٹ ڈائریکٹر لگانے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ڈپٹی اسپیکر نے سوالات کے جوابات موصول نہ ہونے اراکین اسمبلی کی عدم موجودگی پر وقفہ سوالات کو آئندہ اجلاس تک کیلئے ریفرڈکرتے سیکرٹری اسمبلی کو سرکاری محکموں کو سیکرٹریز کو اسمبلی اجلاس میں اپنی حاضری یقینی بنانے کیلئے مراسلہ ارسال کرنے کی ہدایت اور کمشنر کوئٹہ ڈویڑن کو 18نومبر کے اجلاس میں طلب کرنے کی رولنگ دی،جمعہ کے روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وفقہ سوالات کے دوران جوابات موصول نہ ہونے پر بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ میرے چھ سے سات ماہ کے دوران 20سے 22 سوالات کے جوابات موصول نہیں ہوئے متعلقہ محکموں کی غیر ذمہ داری کے باعث اراکین اسمبلی کا استحقاق مجروح ہورہا ہے۔


اْنہوں نے کہا کہ،منتخب نمائندوں کو نظر انداز کر کے انتظامی آفسران کو نوازا جا رہا ہے اس عمل سے اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں تشویش پائی جاتی ہے اْنہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے تمام محکموں کے سیکرٹریز کو اجلاس کے دوران اپنی شرکت یقینی بنانے کی رولنگ بھی دی تھی تاہم اس پر عمل نہیں ہوا۔

بی ین پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ اسپیکر اور اسمبلی سیکرٹریٹ کی ذمہ داری ہے کہ سوالات کے جوابات نہ دینے اور اجلاس میں شرکت نہ کر نے والے سیکرٹریز کے خلاف کاروائی کرکے انہیں تنبی کی جائے کہ وہ اجلاس میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں اْنہوں نے کہاکہ میں نے گزشتہ برس محکمہ پی اینڈ ڈی سے متعلق سوال جمع کرایا تھا جس کا جواب اب تک موصول نہیں ہوا۔

اْنہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر عملدارمد نہ کرنیوالے افسران سے متعلق سزا تجویز کی جائے سزاء تجویز کر کے بیڈ ایکٹ کے تحت ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے،پشتونخواہ میپ کے نصر اللہ زیر ے نے کہا کہ آئین کے تحت یہ معزز ایوان مقدس اور اعلیٰ ادارہ ہے تاہم یہاں بیٹھے منتخب نمائندوں کو انتظامی آفسران کچھ سمجھتے ہی نہیں کمشنر کوئٹہ نے اسپیکر سیکریٹ سے مراسلہ ارسال ہونے کے باوجود میرے سوال کا جواب نہیں دیا جس سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے معاملے کو استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

اختر حسین لانگو نے کہا کہ اگرکمشنر کی ذمہ داری انتظامی امور کو دیکھنا ہے مگر ترقیاتی منصوبوں کا پی ڈی اور ایم ڈی واسا لگایا گیا ہے اگر ان کی کارکردگی اتنی ہی بہتر ہے تو انہیں وزیر اعلیٰ اور اسپیکر کا بھی چارج دیا جائے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے اپوزیشن اراکین کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کمشنر کا کام سڑکیں اور نالیاں بنانا نہیں ہے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے دور میں کمشنرز کو پروجیکٹ ڈائریکٹرز لگایا گیا اگر صوبے میں ایماندار لوگوں کی کمی ہے تو انتظامی افسر کو چیف سیکرٹری کی بھی ذمہ داریاں سونپ دی جائیں ضرورت پڑے تو میری وزارت بھی اْنہیں دے دی جائے۔

اْنہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت عوامی حکومت ہے ہمیں گزشتہ حکومتوں کی تقلید نہیں کرنی چاہئے بعدازاں ڈپٹی اسپیکر نے کمشنر کوئٹہ ڈویڑن کو 18نومبر بروز سوموار ہونیوالے اجلاس میں طلب کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزراء اور بیورو کریسی ایوان کی کاروائی کوکیوں سنجیدہ نہیں لیتے جس پرصوبائی وزیر زراعت انجینئر زمرک اچکزئی نے کہاکہ ہمیں سوالات تاخیر سے موصول ہوئے تھے اگلے سیشن میں سوالوں کے جوابات دے دئیے جائیں گے ڈپٹی اسپیکر نے متعدد سوالات کے جوابات موصول نہ ہونے اور اراکین اسمبلی کی عدم موجودگی پر آئندہ اجلاس تک ریفرڈ کردیا۔