لاہورمیں پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج کے دوران پولیس کی کارروائی سے دو خواتین سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور 85زخمی ۔ تشدد کے واقعات اس وقت رونما ہوئے جب لوگوں نے منہاج القرآن کے قریب سے حفاظتی رکاوٹیں دور کرنے کے خلاف احتجاج کیا ۔ احتجاج کے دوران پولیس کا رویہ سفاکانہ تھا۔ انہوں نے پتھراؤ کرنے والوں پربے رحمی سے ڈنڈے برسائے جس میں85افراد زخمی ہوئے ۔پتھراؤ کے دوران سات پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ۔ سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ پولیس نے غیر اعلانیہ اور غیر قانونی طورپر احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائیں ۔ عوام الناس کو یہ وارننگ نہیں دی گئی کہ وہ منتشر ہوجائیں اور منتشر نہ ہونے کی صورت میں ان پر گولیاں برسائی جائیں گی یعنی غیر اعلانیہ عوام پر گولیاں چلائی گئیں ۔ یہ معلوم کیا جائے کہ کس کے حکم پر پولیس نے گولیاں چلائیں اور اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو زخمی کیا ۔ حالانکہ حفاظتی رکاوٹوں کو دور کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی اگر پولیس اور انتظامیہ کے لوگ پاکستانی عوامی تحریک کے رہنماؤں سے بات کرتے تو وہ شاید اس کی اجازت بھی دے دیتے ۔ مگر صورت حال کوخراب کرنے میں پولیس اور انتظامیہ کا ہاتھ صاف طورپر نظر آرہا ہے ۔ دوسری جانب پولیس کی موجودگی میں مسلم لیگ ن کا معروف کارکن گاڑیاں توڑتا ہوا کیمرے کے سامنے بار بارآتا ہے ۔ اس نے کئی گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے اور گاڑیوں کو نقصان پہنچایا ۔ یہ صاحب وہاں کیوں آئے؟ پولیس نے انکو گاڑیاں اور ان کے شیشے توڑنے پر گرفتار کیوں نہیں کیا؟ ان کی موجودگی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان عوامی تحریک کے ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا گیا اور ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر میں بھی گھسنے کی کوشش کی گئی ۔ اس واقعہ کے بعد ملک کے دوسرے شہروں میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑئے اور لوگوں نے اس پر احتجاج کیا ۔ ایم کیو ایم نے یوم احتجاج منانے کا اعلان کیا ۔ چوہدری پرویزالٰہی نے بھی مذمت کی ۔ احتجاج کی شدت میں اضافہ کی وجہ یہ تھی کہ گولیاں لگنے سے دو خواتین ہلاک ہوگئیں ۔ اکثر ہلاک ہونے والوں کے سر پر گولیاں ماری گئیں ۔ فائرنگ کا مقصد ہی لوگوں کو قتل کرنا معلوم ہوتا تھا۔ان تمام باتوں کا ذمہ دار وزیراعلیٰ پنجاب خود ہیں ۔ اتنا بڑا قتل عام ہورہا تھا اوروہ لمبی تھان کر سوتے رہے ۔ وہ آسانی کے ساتھ پولیس کو واپس بلا کر رینجرز کو تعینات کرتے تو حالات میں بہت بہتری آسکتی تھی اور اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان نہ ہوتا اور نہ ہی اتنی بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوتے ۔ اتنے بڑے واقعے کا ذمہ دار صرف اور صرف وزیراعلیٰ ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ الزام ہے کہ چونکہ وہ فوج اور شمالی وزیرستان آپریشن کی حمایت کررہے ہیں ۔ پنجاب اور مسلم لیگ کی حکومت کو یہ کام پسند نہیں ہے ۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ وزیراعلیٰ اور مسلم لیگ کی حکومت ا س قتل عام کی ذمہ دار ہے ۔ ان کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہونے چاہئیں ۔ اس معاملے میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام کو مسترد کردیا اور اعلان کیا کہ وہ ملک بھر میں احتجاج کریں گے۔ اس سانحے کے خلاف ایم کیو ایم نے ملک بھر میں بھی سوگ منانے کا اعلان کیا ۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے تاجروں اور دکانداروں سے اپیل کی کہ وہ آج کے دن کاروبار بند رکھیں ۔ دوسری جانب عمران خان کا غصہ زیادہ تیز ہوگیاہے اور انہوں نے بھی اس قتل عام کی شدید مذمت کی ہے اور شریف برادران اور دوسرے وزراء کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ دیگر افراد کے علاوہ وزیر داخلہ چوہدری نثار پر بھی ڈاکٹر طاہر القادری نے الزام لگایا کہ وہ بھی قتل عام میں ملوث ہیں اوران کے خلاف بھی قتل کا مقدمہ درج کیاجائے گا۔ ادھرپاکستان عوامی تحریک کے رہنماء اور کارکن مسلم لیگ ن کی حکومت پر یہ الزامات لگا رہے ہیں کہ وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری ملک میں وپس نہ آئیں ۔ بہر حال مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے یہ ایک اور سیاسی بحران ثابت ہوگیا ہے جس میں طاہر القادری ، عمران خان، چوہدری پرویز الٰہی اور ایم کیو ایم اکٹھے ہوگئے ہیں ۔ان سب کے پاس عوامی طاقت موجود ہے جو مسلم لیگ کی حکومت کو زیادہ پریشان کر سکتے ہیں ۔ خصوصاً یہ الزام زیادہ سنگین ہے کہ وہ فوجی کارروائی کی حمایت کررہے ہیں جس کی وجہ سے پنجاب اور ن لیگ کی حکومت ان کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے ۔