بہار کا موسم ہے، میں ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ہوں۔ چڑیوں کی آوازیں کانوں میں رس گول رہی ہیں۔ لیکن یہ سب عارضی ہے کیونکہ ہمارے ارد گرد بے چینی صاف دکھتی ہے، لوگ پریشان ہیں، خوشیاں ان سے روٹھ گئیں ہیں۔ معاشرے میں قیامت کا سا منظر ہے، لوگوں کا ہجوم ہے۔ مختلف ر نگ نسل و مذہب کے لوگ نظر آ رہے ہیں، اُن میں ایک عجیب نفسا نفسی ہے وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں کوئی حد سے زیادہ امیر تو کوئی حد سے زیادہ غریب، کوئی گاڑیوں میں اے سی لگا کرخوش ہے تو کوئی کچروں کے ڈھیر میں بے سر و سامان پڑا سو رہا ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں، قانون نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اخلاق اور انسانیت نے گویا اس معاشرے سے منہ موڑ لیا ہے۔ایک دوڑ لگی ہوئی ہے جو کسی کے راستے آئے گا بے موت مارا جائے گا۔ لوگ اپنے کاموں میں اس قدر محو ہیں کہ ان کا رابطہ دُنیا سے کٹا ہوانظر آ تا ہے۔
منظر بدلتا ہے، ایک دھماکے کی آواز آتی ہے، راہ چلتے لوگ اس دھماکے کی زد میں آتے ہیں۔ کچھ بے حس لوگ بجائے مدد کرنے کے، تصویریں اور ویڈیوبنا رہے ہیں کوئی زخمیوں کو اُٹھانے والا بھی نہیں۔ لوگ تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ لوگوں کی حرکتیں دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے کہ شاید قدرت نے یہاں کچھ نہ کرنے کو فرض قرار دیا ہے، اور لوگ ایک مقدس فرض کی تکمیل کر رہے ہیں، قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے اور انسانیت نامی شے کا جنازہ نکل چکاہے۔
میری نظر معاشرے کے ایک اور پہلو پر پڑتی ہے کوئی مجبوری کی وجہ سے چور تو کوئی طاقت کے بل بوتے پر چور بناہے،قانون حقیقی معنوں میں اندھا نظر آرہا ہے،مظلوم جیلوں میں اور چور سرِ عام گھوم رہے ہیں۔ مفلس کی تذلیل اور پیسے والے کی عزت معاشرے کا معمول بن گیا ہے۔ لا قانونیت عروج پر ہے۔ مظلوم بے یار و مددگارٹھوکر کر کھا رہا ہے۔ عدل کی زنجیریہاں تو لگتی ہی نہیں، اگر لگ بھی جاتی ہے تو مظلوم کے ہاتھوں میں ہتھکڑی بن کر۔ زندگی ایک نہ اٹھانے والا بوجھ بن گیا ہے، جن میں حالات سے مقابلے کی سکت ہے وہ روز روز مر کر جئے جارہے ہیں اور کچھ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں کہ اس زندگی سے موت اچھی۔
پھرنظر ایک قافلہ پر پڑتی ہے۔ کوئی شخص گاڑی میں سوار ہیں۔ اس کے آگے پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار ہے،سڑک پر صرف انہی کا قافلہ ہے۔ گاڑیاں برق رفتاری سے ایک سمت میں جارہی ہیں، باقی لوگوں کو سرکاری اہلکاروں نے سڑک کے کنارے روک رکھا ہے، شاہی قافلے کے درمیان جو بھی آئے گا،بے موت مارا جائے گا، اس لیے عوام سہمی ہوئی حالت میں ایک طرف کھڑی ہے، اپنی بے بسی پہ کڑھتا رہتا ہے کہ یہاں کچھ بھی نہیں بدلے گا،جب تک کہ وہ اپنے آپ کو نہیں بدلتا، اور اس فرسودہ نظام کے خلاف اٹھ کھڑا نہیں ہوتا۔