عرصہ دراز سے گروپ بندی کا شکار دنیا کا مقبول ترین کھیل زوال پذیر ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور ذمہ دار کون ہیں؟ عہدیدار یا وہ کھلاڑی جو معاشی غرض سے کام کاج چھوڑ کر تعلیم کے بجائے اس کھیل کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔پاکستان عالمی درجہ بندی میں 200سے بھی نیچے ہے، لیکن اس کھیل سے متعلق ڈسٹرکٹ یا فیڈریشن پر عرصہ دراز سے براجمان عہدیداروں کو ٹی وی چینل پر کہتے ہوئے کہ پاکستان میں بے پناہ قابلیت ہے سنتے ہوئے یا دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کھیل سے لگاؤ ان نمائندوں کوکتناہے ان کی پالیسیوں اور اقدامات سے انداز لگایا جا سکتا ہے کہ کس طرح یہ ڈومیسٹک فٹبال کو اپنی ذاتی جنگ میں گھسیٹ کر کسی بھی یونٹ کو ناکام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فلاں گروپ کا ایجنٹ ہے۔ اس میں ہمارے گروپ کے ریفری حضرات میچ نہیں کھیل سکتے۔ ماضی میں اظہر، سلمان بٹ، عباس بلوچ جیسے نام فٹبال کے حلقے میں سننے کو ملتے تھے۔ اب فیصل صالح حیات، انجینئر اشفاق احمد، عامر ڈوگر جیسے نام سننے کو مل رہے ہیں۔
فٹبال کھیل یو رپ اورلاطینی امریکہ کے ممالک کے درمیان ایک جنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ وہ براعظم ہے جو مقبول کھیل کے دعویدار کرتے نظر آتے ہیں اور کارکردگی کی بنیاد پر ان مہمانان میں فیڈریشن کے عہدیداروں کا انتخاب ہوتا ہے۔
بعض اوقات ان کے نمائندے پانچ سال یا ایک بڑی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے اور رضا کارانہ طورپر عہدے سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں تاکہ کسی طرح نئی سوچ کے ساتھ فٹبال کو مزید غیر انداز سے چلائیں فیڈریشن میں بیٹھے ارباب اختیار کو کبھی یہ بیان دیتے ہوئے نہ دیکھا نہ لوگوں سے سنا گیا بلکہ مختلف محکمہ جاتی ٹیموں نے اپنے فٹبال کے میچوں کو کیوں بند کیا ہے اور نہ حکمران طبقے سے رابطہ کرنے ان کے بجائے ناکام کوشش کی گئی۔
1997ء میں جاپان اور جنوبی کوریا کی طرز کا ایک لیگ کروایا گیا۔ جسے Kلیگ کا نام دیاگیا، جس میں 20کے قریب ٹیموں نے شرکت کی، پانچوں اضلاع کی ٹیموں کے پچیس کھلاڑی اس وقت فیڈریشن میں کوئی بیٹھے ہیں، لیکن اتنا اندازہ تھا کہ فٹبال کھیل اپنے عروج پر تھا۔ کھلاڑی طبقہ شش و پنچ میں مبتلا دکھائی دیا کہ کون محکمے کی آفر کوقبول کرے۔ لیکن افسوس آج کراچی میں بمشکل پانچ محکمے پائے جاتے ہیں۔
جس میں موجودیا آئندہ ہونے والے دو گروپ فیڈریشن کے عہدیداروں کے لئے پنجہ آزمائی کریں گے۔ بحیثیت کھلاڑی ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی گروپ جیتے یاہارے بخوشی تسلیم کر کے ڈومیسٹک فٹبال کو متاثر نہ کیا جائے۔