بلوچستان ایک مشکل صوبہ ہے یہاں پر ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے مواقع تو بہت ہیں مگر حالات یہ اجازت نہیں دیتے کہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کریں ۔ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے حدود متعین ہیں ۔ سرمایہ کاری کو سرکاری طورپر حب سب ڈویژن کا علاقہ پھلانگنے کی اجازت نہیں ۔ آناًفاناً حکومت وقت کی طرف سے یہ حکم آیا ٹیکس ہالی ڈے یا ٹیکس میں چھوٹ ختم اور حب زون کے کارخانے دار اور صنعت کار مکمل ٹیکس ادا کریں ۔ ویسے بھی حب اور ویندر میں اکثر کارخانے وہ تھے جو سائٹ (کراچی) اور حب میں بھی تھے۔ انہوں نے ٹیکس کی چھوٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لئے وہی کارخانے حب اور وندر میں لگائے اور جب ٹیکس پر چھوٹ اور درآمدات پر ڈیوٹی بحال ہوئی تو چند ماہ کے اندر سینکڑوں کارخانے بند ہوگئے اور انہوں نے سائیٹ کے علاقے سے اپنا کاروبار اور پیداوار شروع کردیا ۔ ویسے بھی بلوچستان میں سرمایہ کار کو خوفزدہ کیا جاتا رہا ہے کہ حب اوروندر سے آگے تمہاری زندگی اور سرمایہ محفوظ نہیں ہے۔ حالانکہ نواب بگٹی جیسے وزیراعلیٰ نے ان سرمایہ کاروں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کی’’ چمڑی اور دھمڑی بھی محفوظ ہے ‘‘ اس کے باوجود گزشتہ 30سالوں میں ایک بھی کارخانہ حب سب ڈویژن کے باہر نہیں لگایا جا سکا جبکہ صوبائی حکومتوں نے ان کو بے حساب سہولیات دینے کی پیش کش کی تھی ۔ اس کے علاوہ بولان اورکوئٹہ کے قریب ایک سیمنٹ کا کارخانہ بھی بعض قوتوں کو ہضم نہیں ہوا۔ ان سرمایہ کاروں کو جو مل چلا رہے تھے روزانہ سرکاری سرپرستی میں دھمکیاں مل رہی تھیں اور ان سے اتنا بھتہ مانگا گیا کہ انہوں نے مل کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرنے میں عافیت جانی اور خود سندھ دوبارہ منتقل ہوگئے ۔ اسی طرح حکومت ایران نے دو کپڑے کی ملیں اوتھل اور کوئٹہ میں لگائی تھیں ۔ کرپٹ افسران کو استعمال کر کے کارخانوں کی اکانومی کو نقصان پہنچایا گیابعد میں جام یوسف اور لیاقت جتوئی جو وزیر صنعت تھے ان کو شٹ اپ کال دی گئی اور کارخانے بند کروائے گئے۔ اس کی مشینری کوڑیوں کے دام گورنر اویس غنی کے قریبی رشتہ دار کو دی گئی ۔ مل کے احاطے کو ڈرامے کے طورپر دو یونیورسٹیوں کو دیا گیا تاکہ لوگ ان ملوں کو دوبارہ چلانے کا مطالبہ تک نہ کرسکیں ۔ اس صورت حال میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ لوگ حب سب ڈویژن کے حدود کو پار کرکے صوبے کے دور دراز علاقوں میں کارکانے لگائیں ۔ اب افتخار محمد چوہدری کے صاحبزادے کو بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ کا سربراہ بنایا گیا ہے ۔ سرمایہ کاری کی دنیا میں ان کا کوئی نام نہیں ہے نہ ہی ان کا ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سے کوئی تعلق بنتا ہے ۔ ارسلان صاحب صرف سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی ان کو بہت سے اداروں نے نوکریاں دی تھیں ان اداروں میں کوئی قابل قدر کارنامے انجام نہ دے سکے اور تنخواہ حاصل کرتے رہے ۔ بلکہ انہوں نے اپنا اور والد کا نام اسکینڈل میں زیادہ مشہور کیا، وہ اس لئے بچ گئے کہ وہ چیف جسٹس کے صاحبزادے تھے ورنہ ان کو بھی توقیر صادق کی طرح ہتھکڑیوں میں گھسیٹا جاتا اور پولیس کے اہلکار ان پر بھی چپت رسید کرتے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت بلوچستان اور اس کے وزیروں کا فیصلہ نہیں ہے کیونکہ یہ بات یقینی ہے کہ موجودہ حکومت اور ان کے وزراء میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ ارسلان جیسے ہیرے کو تلاش کرسکیں۔یہ فیصلہ زیادہ بڑی طاقت نے حکومت بلوچستان پر مسلط کرادیا ہے ۔ شاید وہ صرف اور صرف تنخواہ اور مراعات حاصل کرتے رہیں ۔ ہم اس مطالبے کو صریحاً جائز سمجھتے ہیں کہ ان کی تمام مراعات کو ان کے پرفارمنس سے منسلک کیاجائے ۔ ان کو ہر طرح کے سرکاری ٹھاٹ باٹ سے محروم رکھا جائے تاوقتیکہ وہ کوئی کمال نہ دکھا ئیں اورغریب بلوچستان کی تنخواہ کو حلال بنائیں۔ وہ ایک اور پیراسائٹ Parasiteبلوچستان اور اسکے عوام کیلئے نہ بنیں ۔ اس سے قبل ایک اور بڑے پیرا سائٹ ثمر مبارک مند ایٹم بم والے ریکوڈک میں تباہی مچائے ہوئے ہیں۔ کسی نے ریکوڈک میں کوئی کمال نہیں دکھایا اور اربوں روپے کے مراعات حاصل کر چکے۔