کراچی: صوبائی محکمہ صحت کے حکام کے لیے پولیو ویکسین کی مہم کو آگے بڑھانا مشکل ہوتا جارہا ہے، خاص طور پر ایسے بچوں کے لیے جو حساس علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور جو اس سے قبل کی مہمات میں پولیو ویکسین کے قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے۔
سیکیورٹی حکام کی جانب سے بھی انہیں ایسا کوئی اشارہ موصول نہیں ہوا ہے کہ انہیں سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔
کچھ سینئر حکام نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ انہوں نے شہر میں کل بروز منگل سے ایک اور دو روز پولیو مہم کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن وہ اب تک سیکیورٹی حکام کی جانب سے مثبت اشارے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ ان دنوں کے لیے مناسب تیاری کرسکیں۔
کراچی میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی نگرانی کرنے والے ایک سینئر اہلکار نے کہا ’’ہم نے منگل سے شہر میں ایک مہم شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس میں ہمارا ارادہ تھا کہ ہم حساس علاقوں کو بطورِ خاص ہدف بنائیں گے۔ تاہم ہمیں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اب تک کوئی مثبت اشارہ نہیں ملا ہے۔‘‘
اسی طرح سندھ میں حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے بعض حکام کو معذور کردینے والی اس بیماری سے مقابلہ کرنے کے منصوبے کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں، جس کی وجہ سےعالمی ادارۂ صحت کی جانب سے پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والوں پر پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔ اس سال پولیو کے کیسز دنیا بھر میں پاکستان میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) ایئرپورٹس پر اور سرکاری ہسپتالوں میں بین الاقوامی پروازوں کے مسافروں کو پولیو کے قطرے پلانے کے انتظامات سے منسلک ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ان لوگوں کو سرٹیفکیٹ بھی جاری کررہا ہے جو پاکستان سے چار ہفتوں کے لیے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس ادارے نے کراچی میں پولیو مہم کی اجازت نہیں دی، اس لیے کہ گڈاپ اور دوسرے علاقوں میں پولیو کے رضاکاروں پر متعدد بار حملوں کی وجہ سے اس ادارے نے مجبوراً حفاظتی ٹیکوں کی اکثر مہمات معطل کردی تھیں۔
حالانکہ حکومت سندھ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ابتداء میں یہ حکم دیا تھا کہ پولیو ورکرز کو ایسی مہمات کے دوران سیکیورٹی فراہم کی جائے۔
انسدادِ پولیو مہم کے دوران زیادہ سے زیادہ تحفظ کو یقینی بنانے اور رضاکاروں کو بہتر سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے بعد میں ایک حکمت عملی بھی تیار کی تھی ۔
یاد رہے کہ اکیس جنوری 2014ء کو تین پولیو ورکرز جن میں دو خواتین شامل تھیں، کو قیوم آباد میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
ان ہلاکت خیز حملے کے بعد حکومت سندھ نے فیصلہ کیا کہ کراچی میں اتوار کے روز چوبیس یونین کونسلوں میں آٹھ گھنٹے کے لیے موٹرسائیکل کی سواری پر پابندی عائد رہے گی، تاکہ ان اوقات کے دوران ان علاقوں میں جہاں انسدادِ پولیو مہم جاری ہے، اس میں حصہ لینے والے رضاکاروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
تین ماہ یا اس سے زیادہ عرصے تک انسدادِ پولیو کی یہ خصوصی مہمات مخصوص علاقوں میں مناسب تحفظ کے ساتھ چلائی گئی تھیں۔
اس شہر میں 2014ء کے نصف حصے میں اب تک پولیو کے چھ کیسز ریکارڈ ہوچکے ہیں، جبکہ پچھلے سال اس شہر میں پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد آٹھ تھی۔
دنیا بھر کے 100 پولیو کیسز میں 82 پولیو کیسز پاکستان میں ریکارڈ ہوئے ہیں۔