عراقی حکومت نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ اسے فوری طور پر فضائی امداد فراہم کی جائے جبکہ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری خطے کے رہنماؤں سے بات چیت کی غرض سے اردن کے دارالحکومت عمان پہنچ گئے ہیں۔
دوسری جانب شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق و شام (داعش) کی جانب سے عراق کی مغربی سرحد پر اردن اور شام کی سرحدی چوکیوں پر قبضے کے بعد اس سرحد پر حکومت کی عمل داری بظاہر ختم ہو گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ باغیوں نے انبار صوبے میں دو چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس سے ایک روز قبل باغیوں نے قائم قصبے پر قبضہ کر لیا تھا جو شامی سرحد کے قریب واقع ہے۔
اس کے علاوہ عراق کے وزیرِ خارجہ ہوشیار زبیری نے بی بی سی کے جان سمپسن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے باضابطہ طور پر امریکی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ہمیں فضائی مدد فراہم کریں۔ عراق کے پاس فضائیہ نہیں ہے۔ عراق کے پاس ایک بھی جنگی طیارہ نہیں ہے۔‘
بغداد میں بی بی سی کے جان سمسپن نے بتایا کہ امریکہ کو داعش سے درپیش خطرے کا پہلے سے پتہ تھا مگر اس نے صرف دو ہفتے قبل ان کی کارروائیوں کی فضائی نگرانی کا کام شروع کیا ہے۔
اتوار کو اطلاعات کے مطابق دفاعی لحاظ سے اہم شمالی شہر تل عفر کے ہوائی اڈے پر بھی داعش نے قبضہ کر لیا ہے۔
داعش کے جنگجوؤں نے عراق کے بڑے حصوں کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا ہے، جس کا آغاز موصل پر قبضے کے بعد ہوا۔
اغیوں نے گذشتہ دنوں میں سٹریٹیجک لحاظ سے اہم قصبوں پر قبضہ کیا ہے جو سنی اکثریت کے صوبے انبار میں واقع ہیں جن میں قائم، رطبہ، رواہ اور عناہ شامل ہیں۔
باغیوں نے شامی سرحد پر واقع چوکی الولید جبکہ اتوار کو اردن کی سرحد پر واقع چوکی طریبل پر قبضہ کیا، جب حکومتی افواج وہاں سے پسپا ہو گئیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس قبضے کے نتیجے میں باغیوں کو ہتھیاروں کی ترسیل میں مدد ملے گی۔
عراقی کردستان کے شہر اربیل سے بی بی سی کے جم موئر کا کہنا ہے کہ کچھ دیر کے توقف کے بعد بغداد کے شمال اور شمال مشرقی جانب 75 کلومیٹر کے علاقے میں لڑائی ہوتی رہی ہے اور باغی دوبارہ حرکت میں ہیں۔
اب توجہ کچھ حد تک انبار پر ہے جو بغداد کے مغرب میں سنی اکثریتی صوبہ ہے اور جہاں قبائل کافی طاقتور ہیں۔
اردن اور شام کی سرحد پر واقع چوکیوں کے اطلاعات کے مطابق قبضے کامطلب ہے کہ عراقی حکومت کی عمل داری مغربی سرحد پر ختم ہو گئی ہے۔
ایک قبائلی رہنما کا کہنا ہے کہ صوبے کا 90 فیصد باغیوں کے ہاتھوں میں ہے اور اس ساری کارروائی کے آغاز سے قبل بغداد کے مغربی کنارے پر 30 کلومیٹر دور فلوجہ کے علاقے پر ان باغیوں کا جنوری سے قبضہ ہے اور اس کے ساتھ ہی صوبے کے دارالحکومت رمادی کے نصف حصے پر بھی قبضہ تھا۔
کئی مقامات پر فوجیوں اور پولیس نے اپنی چوکیوں کو چھوڑنے میں عافیت جانی جب باغیوں نے انھیں خون خرابے سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کیا۔
اتوار کو ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کی عراق میں مداخلت کی مخالفت کی اور واشنگٹن پر الزام عائد کیا کہ ’وہ عراق پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے اور عراق پر اپنے چمچوں کے ذریعے حکومت کرنا چاہتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عراق میں مرکزی تنازع ان لوگوں کے درمیان ہے جو عراق کو امریکہ کے کیمپ میں لے جانا چاہتے ہیں اور جو ایک آزاد عراق چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے عراق میں فرقہ واریت کی بات کو مسترد کر دیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے اتوار کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں بات کرتے ہوئے عراقی رہنماؤں سے کہا کہ وہ ’فرقہ وارانہ ترغیبات سے بالاتر ہو کر حکومت بنائیں جو متحد ہو اور اس کا مطمحِ نظر عوام کی ضروریات پوری کرنا اور اس کی نمائندگی کرنا ہو۔‘
رمادی میں موجود ایک اعلیٰ رہنما شیخ رعد السلیمان نے کہا کہ داعش نے اتنا بڑا علاقہ اس لیے قبضے میں لیا کیونکہ عراقی فوج لڑنے کو تیار نہیں تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف سیاستدانوں اور سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ جس طرح سرکاری فوجیں شدت پسندوں کے خلاف بے بس نظر آ رہی ہیں اس پر بغداد میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ شدت پسندوں کے جنگجو سرکاری فوجیوں سے بہتر تربیت یافتہ ہیں اور ان کے پاس نہ صرف لڑنے کا بہتر تجربہ ہے بلکہ ان کے پاس فوج سے بہتر اسلحہ بھی موجود ہے۔
عراقی فضائیہ کے پاس موجود امریکی ’ہیل فائر‘ میزائل دو ہفتے پہلے ختم ہو گئے تھے اور فضائیہ کے پاس صرف دو ’سیسنا‘ طیارے ہیں جن سے یہ میزائل داغے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ عراقی فضائیہ اگر طیاروں سے بمباری کرتی ہے تو اس سے عام شہریوں کے مارے جانے کا بھی خدشہ ہے۔
عراقی وزیرِاعظم نوری المالکی پر الزام لگتا رہا ہے کہ ان کی سنی مخالف پالیسیوں کی وجہ سے کچھ سنی شدت پسند جہادی تنظیم دولت اسلامی عراق و شام میں شامل ہوگئے ہیں اور عراقی فوجیوں کے خلاف جاری لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔